• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مفتی عبدالقادر

قربانی کے ایام قریب آتے ہی بعض نام نہاد دانشور اور مفکر حضرات کی طرف سے انسانی ہمدردی کے ناطے بڑی شد ومد کے ساتھ اس بات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ قربانی کا کیا فائدہ ؟ ہر سال خواہ مخواہ لاکھوں جانور قربان کر دئیے جاتے ہیں ، لوگ پڑوس میں بھوک سے مر رہے ہیں ، کچھ مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے خود کشی کر رہے ہیں، کچھ لوگ ادویات کے قوت خرید سے باہر ہونے اور مناسب علاج نہ ملنے کی وجہ سے جان کی بازی ہار رہے ہیں۔

ہماری بہنیں گھروں میں جہیز کا انتظام نہ ہونے کے باعث بیٹھی ہوئی ہیں، اس سے بہت بہتر ہے کہ کسی غریب کا چولہا جلادیا جائے، کسی کے گھر میں راشن ڈلوادیا جائے، سخت گرمی میں راہگیروں کے لیے پانی وشربت کی سبیلیں لگادی جائیں، کسی کے علاج کا خرچہ اٹھا کر اس کی زندگی بچا لی جائے، گھروں میں بیٹھی بہنوں کے جہیز کا انتظام کر کے انہیں عزت سے رخصت کردیاجائے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن لوگ یہ باتیں کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ وہ یہ رائے زنی اللہ اور اس کے رسولﷺ کے مقابلے میں کررہے ہیں اور اپنے آپ کو انسانیت کا زیادہ ہمدرد قرار دے رہے ہیں۔ 

سورۂ حجرات آیت نمبر ایک میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے واضح الفاظ میں فرما دیا ہے کہ’’اے ایمان والو! کسی بھی معاملے میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے آگے مت بڑھا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو،بے شک، اللہ سب کچھ سننے والا اور خوب جاننے والا ہے‘‘۔

بلاشبہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کائنات کواپنی قدرت سے تخلیق فرمایا ہے اور وہی اس کارخانہ قدرت کا نظام چلا رہا ہے،وہ اپنے بندوں کی ضروریات سے سب سے زیادہ واقف ہے اورجب کہ اللہ کے رسول ﷺ نے واضح الفاط میں فرما دیا ہے، جیسا کہ جامع ترمذی میں مروی ہے کہ ’’قربانی کے دن اللہ تعالیٰ کو قربانی سے بڑھ کر کوئی عمل محبوب نہیں ہے‘‘۔

تو پھر کوئی انسان قربانی کے متبادل کے طور پر قربانی کے دن پر لاکھوں روپے ہی کیوں نہ صدقہ وخیرات کرتا پھرے، لوگوں میں راشن تقسیم کرے، مفت دوائیاں فراہم کرے، سبیلیں لگائے لیکن وہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کرسکتا اور نہ ہی انسانیت کا ہمدرد بن سکتا ہے۔

درحقیقت ایسی باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جو حدیث کے منکر ہیں اور اسے دین میں حجت نہیں مانتے اور ان ہی کی باتوں سے متاثر ہو کر دیگر لوگ بھی ان باتوں کو چرچا کرنے لگ جاتے ہیں۔ حالانکہ ان تمام کاموں کے حوالے سے ہمیں شریعت نے دوسرے مواقع دئیے ہیں، خصوصاًرمضان المبارک کا مہینہ جو پہلے ہی سے غم خواری اور ہمدردی کا مہینہ ہے ۔ جس میں صدقہ فطر اورزکوٰۃ کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ جو نقد رقم کے ساتھ ، راشن اور ادویات کی تقسیم کی صورت میں ادا کی جاسکتی ہے۔

ازروئے حدیث تو ہمیں سال بھر نفلی صدقہ و خیرات کا اہتمام کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کو ٹالنے اور بری موت سے بچانے کا باعث بنتی ہے، جیسا کہ جامع ترمذی میں اللہ کے رسول ﷺ سے روایت مروی ہے۔ساری بات یہ ہے کہ اللہ اپنے بندوں کی حاجات اور ضروریات سے واقف ہے، وہی یہ سارا نظام ہستی چلارہا ہے۔ اس لئے کوئی اللہ کے نظام کو چیلنج نہیں کرسکتا۔

غرض سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ قربانی کرنا واجب ہے، قرآن کریم میں سورۂ حج آیت نمبر۳۴میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ’’اور ہم نے ہر امت کے لئے ایک قربانی مقرر کر دی ہے، تاکہ وہ ان مویشی چوپایوں پر جو اللہ نے انہیں عنایت فرمائے ہیں (ذبح کے وقت) اللہ کا نام لیں، سو تمہارا معبود ایک (ہی) معبود ہے، پس تم اسی کے فرماں بردار بن جاؤ، اور (اے حبیب!) عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں‘‘۔علاوہ ازیں رسول اکرمﷺ نے ہجرت کے بعد ہرسال قربانی فرمائی، کسی سال ترک نہیں فرمائی۔ 

جس عمل کواللہ کے رسول ﷺنے لگاتار کیا اور کسی سال بھی نہ چھوڑا ہو تو یہ اُس عمل کے واجب ہونے کی دلیل ہے، علاوہ ازیں آپ ﷺ نے قربانی نہ کرنے والوں پر وعید ارشاد فرمائی۔ حدیث پاک میں بہت سی وعیدیں ملتی ہیں، مثلاً،سنن ابن ماجہ میں آپ ﷺ کا یہ ارشاد مروی ہے ’’ جو شخص استطاعت کے باوجود قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے‘‘ دوسری طرف جب ہم اس کے اُخروی فوائد پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں قربانی کی بڑی فضیلتیں نظر آتی ہیں۔ 

قربانی کے جانور کے ہر بال کے بدلے ایک نیک ملتی ہے، مسند احمد میں حضرت زید بن ارقم ؓسے روایت ہے کہ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ: یہ قربانیاں کیا ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: قربانی تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرام ؓ نے پوچھا کہ ہمارے لیے اس میں کیا ثواب ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس کے ایک ایک بال کے عوض ایک نیکی ہے، اسی طرح اون کے متعلق فرمایا کہ اس کے ایک ایک بال کے عوض بھی ایک نیکی ہے۔ اس لحاظ سے ہمیں ان گنت نیکیاں ملتی ہیں، کیونکہ ہم کوشش کر کے بھی جانورکے بال نہیں گن سکتے۔

اس کے علاوہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے سینگوں، بالوں اور کھروں کے ساتھ لیا جائے گا اورقربانی کے جانور کے خون کا خطرہ زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ اس قربانی کرنے والے کی مغفرت فرما دیتا ہے۔ جیسا کہ امّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے جامع ترمذی میں روایت ہے۔ قربانی نہ کرنے والے یقینا ًان تمام فضائل سے محروم رہیں گے۔

علاوہ ازیں اگر ہم قربانی کے دنیاوی فوائد کو سامنے رکھ لیں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کے عمل میں جو مصلحتیں اور حکمتیں رکھی ہیں، ہم اپنی دانست میں ان کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ قربانی کے عمل کے دوران کسی فرد واحد کا فائدہ نہیں ہوتا، بلکہ ایک بہت بڑی معاشی سرگرمی وجود میں آتی ہے۔ 

متعدد صنعتوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اس سے مستفید ہوتے ہیں او ردولت ایک طبقے کے ہاتھوں میں سمٹنے کے بجائے گردش میں رہتی ہے ،جس سے نہ صرف غریب کوروزی ملتی ہے، معاشرے سے غربت کا خاتمہ ہوتا ہے، بلکہ ملک کی مجموعی پیداوار اور آمدن میں اضافہ ہوتا ہے اور ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوتا ہے۔ 

ہمارے معاشرے میں ایک بڑا طبقہ مویشیوں کی فارمنگ سے وابستہ ہے جو پورا سال ان جانوروں کی نسل کو پروان چڑھاتا ہے ، ان کی دیکھ بال کرتا اور پھر انہیں منڈی میں لاکر فروخت کردیتا ہے ،یوں ان کا سارا روزگار اس فارمنگ انڈسٹری سے وابستہ رہتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہماری آبادی کا بڑا حصہ زراعت کے پیشے سے وابستہ ہے، جو ملک کے دیہی اور شہری علاقوں میں جانوروں کے لئے چارے کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے، چنانچہ اسی موقع کی منابست سے ہماری زرعی پیداوار میں بھی اضافہ ہوتا ہے، ملک کی مجموعی پیداوار اورآمدن میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔

علاوہ ازیںان ایام میں جانوروں کی تزئین و آرائش اور قربانی کے حوالے سے ملک کے طول و عرض میں لاکھوں اسٹالز قائم کئے جاتے ہیں، جہاں ان کی رسیاں ، جھالریں، چٹائیاں، ترپال، چھریاں اور بغدے وغیرہ فروخت کئے جاتے ہیں۔ 

یوں لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ علاوہ ازیں جولوگ بطور پیشہ قصاب کا کام کرتے ہیں، ان کی خدمات کو یقینی طور پر حاصل کیا جاتا ہے، انہیں پورا سال اتنے جانور قربان کرنے کا موقع نہیں ملتا ،جتنا ان تین دنوں میں مل جاتا ہے۔اس کے علاوہ جو لوگ گوشت کا کاروبار کرتے ہیں تو وہ قربانی کے ایام میں اپنی مارکیٹوں میں جانوروں کے ذبح کرنے کے علاوہ جانوروں کا گوشت ، ان کا قیمہ اور جانوروں کے سری پائے بنانے کی خدمات فراہم کرتے ہیں اور اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔ 

علاوہ ازیں جانوروں کی قربانی کی صورت میں ان کی کھالیں دینی مدارس اور رفاہی تنظیموں کو صدقہ کی جاتیں ہیں جو دینی مدارس میں رہائشی طلبہ کی ضروریات کی کفالت اوردینی کاموں کی ترویج و اشاعت کا ذریعہ بنتی ہیں۔

پھر چمڑے کی صنعت سے وابستہ افراد ان دینی مدارس اور رفاہی اداروں سے کھالیں خریدنے کے بعد ان سے چمڑے کی مختلف مصنوعات بناتے ہیں ، یوں یہ معاشی سرگرمی ملک کی مجموعی آمدن میں ملین نہیں ،بلکہ بلین ڈالرز اضافے کا باعث بنتی ہے۔ پھر قربانی کے نتیجے میں جو قربانی کا گوشت حاصل کیا جاتا ہے، اس کے حوالے سے شریعت کا استحباب کے درجے میں حکم یہ ہے کہ اس گوشت کے تین حصے کئے جائیں۔ 

ایک حصہ اپنے لئے اٹھا کر رکھ لیا جائے، ایک رشتے داروں میں تقسیم کردیا جائے اور ایک حصہ غریبوں کو بانٹ دیا جائے۔ یوں ایک طرف اس موقع کی مناسبت سے رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کا موقع ملتا ہے اور ازروئے حدیث رزق میں فراوانی اور عمرمیں اضافے کا باعث بنتاہے۔

بہرحال یہ ساری مصلحتیں اور حکمتیں اپنے محدود علم اور مشاہدے کی بنیاد پر لکھی گئی ہیں ورنہ ان کا احاطہ یقیناً ناممکن ہے۔باقی قربانی کے عمل پر یہ اعتراض کرنا کہ ہر سا ل لاکھوں جانوروں کی قربانی سے جانوروں کی نسل کشی ہوتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قدرت کا نظام ہے اور یہ بات بخوبی ہمارے مشاہدے میں ہے کہ جس سال بھی مسلمانان عالم قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں تو اگلے سال منڈی میں پہلے سال سے بھی زیادہ جانور قربانی کے لیے لائے جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے حلال جانوروں کی افزائش نسل میں خاص برکت رکھی ہے، خاص کر جب ان جانوروں کو اللہ کی خوشنودی کی خاطر قربان کرنا مقصود ہو۔

یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ قربانی کا اصل مقصد اخلاص نیت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو نہ تو قربانی کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی اس کا خون،اسے توتمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے، جیسا کہ سورۂ حج کی آیت نمبر ۳۷ میں ارشاد فرمایا گیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ قربانی کو خوش دلی کے ساتھ کرنے کا حکم ہے ۔جیسا کہ جامع ترمذی میں ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت کے یہی آخری الفاظ ہیں۔

علاوہ ازیں قربانی کی حقیقت اپنی محبوب چیز کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہے ،جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے چہیتے صاحبزاے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی اللہ کے حضور پیش کی تھی، اللہ تعالیٰ نے ان کے جذبے اور نیت کو قبول فرماکر اس کا متبادل عطا فرمایا۔ سب سے بڑھ کر نفسانی خواہشات کو اللہ کی خاطر قربان کرنا اصل مقصودہے۔ اور چونکہ یہ قربانی انسانی جان کے متبادل کے طور پر اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس لئے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے دین خاطرجان کی قربانی بھی پیش کرنے کا وقت آیا تو اس سے بھی دریغ نہیں کیا جائے گا۔

آج کے دور میں اس کی زندہ مثال اہل فلسطین ہیں، جنہوں نے اللہ کی رضا و خوشنودی کی خاطر اپنا سب کچھ اس کی راہ میں لٹا دیا ہے ۔ جن کے عزم واستقلال اور جرأت و ہمت کو دیکھتے ہوئے یورپی ممالک میں لوگ تیزی سے اسلام قبول کر رہے ہیں۔ 

بہرحال اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ مسلمانانِ عالم کی قربانیوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے ، اس کی ظاہری و باطنی مصلحتیں، جسمانی و روحانی حکمتیں اوردینی و دنیاوی فوائدو ثمرات عطا فرمائے۔ (آمین یا رب العالمین)