حرف آغاز … واصف ناگی
ہم نے اپنے پچھلے کالم میں منٹگمری روڈ ،جو کہ پنجاب کے ایک گورے لیفٹیننٹ گورنر منٹگمری کے نام پرہے، پر واقع دو قدیم اور خوبصورت کوٹھیوں کا ذکر کیا تھا۔ اس سڑک پر کبھی پرنس ہوٹل بھی ہوا کرتا تھا، اس کی خوبصورت عمارت تو آج بھی کسی حد تک اپنی اصل شکل و صورت میں ہے البتہ اب اس میں رائٹرز گلڈ کے دفاتر آ چکے ہیں۔ اس کا خوبصورت لان جو ہم نے 1970ء میں دیکھا تھا اب اجڑ چکا ہے البتہ اس کامرکزی دروازہ آج بھی اپنی اصل حالت میں ہے۔ اس ہوٹل کی اوپری منزل پر کبھی مہاجرین نےبھی قبضہ کر رکھا تھا، ویسے آپ کو دلچسپ بات یہ بتائیں کہ لاہور کے کئی تعلیمی اداروں کے ہوسٹلوں یعنی اقامت گاہوں اور عمارات میں مہاجرین آگئے تھے اور ابھی تک وہیں بیٹھے ہیں۔ یہ ہر حکومت کی انتہائی نااہلی، غفلت اور ناقص منصوبہ بندی ہے کہ آج بھی گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنز (جس کا قدیمی نام ڈی اے وی کالج تھا) اس کے آدھے سے زیادہ بلکہ پانچ ہوسٹلوں پر مہاجروں نے قبضہ کر رکھا ہے اور بعض وکلا نے دفاتر بنا لئے ہیں۔ دوسرا گورنمنٹ مسلم ہائی اسکول نمبر 2 ہے جس کی اوپر والی منزل پرکچھ اوپر کے کمروں میں 1947ء میں جو مہاجر بھارت کے مختلف شہروں سے آئے تھے وہ آج تک اسی طرح بیٹھے ہوئے ہیں۔ جبکہ لوگوں نے مختلف علاقوں میں اپنے گھر بھی بنا کر کرائے پر دے رکھے ہیں اور خود ابھی تک انہی ہاسٹلز میں مقیم ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ آج تک کسی اسکول انتظامیہ نے اور محکمہ تعلیم اسکول سیکشن نے ان مہاجرین کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ کبھی اس تاریخی اور قدیم اسکول میں ایک بڑا سوئمنگ پول بھی تھا جو کسی احمق شخص نے بند کرا دیا۔ اسی طرح گورنمنٹ سنٹرل ماڈل اسکول، کوئین میری اسکول و کالج اور لاہور کالج برائے خواتین (اب یونیورسٹی) کے خوبصورت سوئمنگ پول مدت ہوئی بند کر دیئے گئے۔ جبکہ گوروں نے کنیئرڈ کالج، ایف سی کالج، گورنمنٹ کالج، لاہور کے کئی اسکولز اور کالجوں میں سوئمنگ پول بنائے تھے، ایف سی کالج اور کوئین میری کے سوئمنگ پول طالبات کے لیے مخصوص تھے مگر ہمارے ہاں انتہائی عقل مند لوگوں کی کمی نہیں انہوں نے کئی تعلیمی اداروں کے تیراکی کے تالاب بند کرادیئے۔ اس کے پیچھے کیا وجہ تھی اور یہ کیوں بند کئے گئے ، بات پھر وہیں آجاتی ہے کہ ایسے کاموں سے کئی لوگوں کی دیہاڑی لگتی ہے۔ گورنمنٹ مسلم ہائی اسکول نمبر 2 جو کہ حضرت بابا فریدؒ کے ٹبہ اور گھوڑا ہسپتال کے نزدیک ہے اس کے سوئمنگ پول کو ہم نے اپنی جوانی میں کئی مرتبہ دیکھا ہے اور وہاں اکثر جایا کرتے تھے اس گورنمنٹ سنٹرل ماڈل اسکول اور سنٹرل ٹریننگ کالج کا مشترکہ سوئمنگ پول کیا شاندار تھا، وہاں پر باقاعدہ اسکول اور کالج کے طلبا کے اوقات مقرر تھے۔ پھر کسی ’’سیانے‘‘نے یہ پول بند کرکے اس جگہ کو ہموار کردیا۔ گورنمنٹ مسلم ہائی اسکول نمبر 2 کے سوئمنگ پول کی چھت تکونی ہے اور عمارت ہال کی صورت میں آج بھی موجود ہے۔ یہ تاریخی عمارت بھی کسی روز محکمہ پی ڈبلیو ڈی کی نذر ہو جائے گی۔ بات ہو رہی تھی مہاجرینِ لاہورکی، تیسرا تعلیمی ادارہ لاہور کالج برائے خواتین (اب یونیورسٹی) کےسرگنگا رام بلاک جہاں پر گنگا رام ہائی اسکول اور ٹریننگ سنٹر تھا وہاں پر بھی 1947ء میں مہاجرین آکر ٹھہرے تھے، شکر ہے کہ انہوں نے جلد وہ تاریخی اور خوبصورت عمارت چھوڑ دی ورنہ اس کا بھی وہ حشر نشرکردیتے۔ اس اسکول کی عمارت میں کبھی سرگنگا رام ہسپتال و فاطمہ جناح میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کی طالبات اور ڈاکٹروں کا ہوسٹل بھی رہا۔ دوسری طرف لاہور کالج نے اپنی اصل عمارت 14 ہال روڈ کو ایسا نظر انداز کر دیا ہے جیسے اس تاریخی اور انتہائی خوبصورت عمارت سے ان کا کبھی کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ اس عمارت میں بھی لاہور کالج کی طالبات کا ہوسٹل تھا۔ مانا کہ اس عمارت میں کبھی کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا بوائز ہوسٹل بھی رہا ہے مگر اب تو کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) والوں نے بھی اسے لاوارث چھوڑ دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کے ہردلعزیز وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمود ایاز، لاہور کالج برائے خواتین (اب یونیورسٹی) کی وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر شگفتہ ناز کے ساتھ مل کر اس تاریخی عمارت کو بچانے کے لیے اقدامات کریں۔ لاہور کالج کا آغاز اس عمارت سے ہوا تھا جبکہ اس عمارت کے دوسرے حصے پر محکمہ تعلیم (اسکولز سائیڈ) نے قبضہ کرکے اس کی تاریخی عمارت کو گرا دیا اور پھر پی ڈبلیو ڈی نے حسب روایت دیہاڑی لگا کر وہاںایک بدنما عمارت کھڑی کردی ہے۔ ہم نے بات شروع کی تھی پچھلے کالم میںمنٹگمری روڈ پر واقع تقریباً 40کنال کے رقبے میں واقع ایک جیسی دو کوٹھیوں کی۔ منٹگمری روڈ پنجاب کے ایک گورے گورنر لیفٹیننٹ گورنر سر رابرٹ منٹگمری کے نام پر یہ سڑک بھی بڑی تاریخی ہے، اس سڑک پر آج بھی پرنس ہوٹل کی پرانی پیلے رنگ کی عمارت موجود ہے۔ اس ہوٹل کافرنیچر یقین کریں دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ ہم اس ہوٹل میں کئی مرتبہ گئے تھے۔ پرنس ہوٹل مدت ہوئی ختم ہو چکا ہے اب اس میں رائٹرز گلڈ کا آفس ہے اور کچھ اور دفاتر بھی ہیں۔ ہمیں آج بھی یاد ہے پرنس ہوٹل کا سفید اور کالے سنگ مرمر کا ٹکڑوں والا فرش۔ ہوٹل کے داخلی دروازے پر ساگوان کی لکڑی کے فریم کا نیم گول بڑا سا شیشہ پھر گوروں کے زمانے کا خوبصورت فرنیچر ایک بڑی سی آرام دہ کرسی، ارے سب کچھ تو تباہ ہوگیا۔ اس ہوٹل کی اوپر والی منزل پر بھی ایک مہاجر خاندان کئی برس رہا۔ کبھی اس ہوٹل کا بڑا عروج تھا۔ آج بھی اس عمارت کے لوہے کے اصل دروازے موجود ہیں۔ اس عمارت کے سامنے کبھی روزنامہ مساوات کا دفتر تھا جو گورنمنٹ اسلامیہ کالج کوپر روڈ برائے خواتین کے پاس آ چکا ہے البتہ اس کے اندر کچھ حصے پر ابھی بھی قبضہ ہے۔اسلامیہ کالج کوپر روڈ لاہور کا لڑکیوں کا واحد کالج ہے جہاں پر بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ اپنی ہمشیرہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ 26مارچ 1944ء میں تشریف لائے تھے۔ اس حوالے سے یہ بڑا تاریخی کالج ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک حکومتی حلقوں کی طرف سے کبھی بھی اس واقعہ اور بات کو اجاگر نہیں کیا گیا۔ لاہور کے کئی تعلیمی اداروں میں قائداعظمؒ اور محترمہ فاطمہ جناح تشریف لائے تھے مگر ہم نے کبھی ان کالجوں کے پراسپکٹس میں اس بات کا ذکر نہیں کیا۔ محترمہ فاطمہ جناح نے ایک فلم کا افتتاح بھی کیا تھا۔ خیر اسلامیہ کالج کوپرروڈ برائے خواتین بہت تاریخی کالج ہے تحریک پاکستان میں اس کی طالبات نے ناقابل فراموش کردار ادا کیا تھا۔ (جاری ہے)