ضیاء الحق، کراچی
کراچی سے ہماری روانگی خاصی ایمرجینسی میں ہوئی۔ دراصل وجہ یہ تھی کہ آسٹریلیا میں مقیم ہمارے دامادکو اپنی اہلیہ اور دو ننّھے بچّوں کو کراچی سے اپنے ساتھ آسٹریلیا لے کرجانا تھا۔ تاہم، وہ ملازمت کی مصروفیات کے باعث کراچی نہیں آسکے، تو پھرانھیں آسٹریلیا لے جانے کا فریضہ طوعاً و کرہاً ہمیں انجام دینا پڑا۔ ہمیں زیادہ پریشانی دونوں بچّوں کے حوالے سے تھی، جن کی عُمریں بالترتیب چار سال اور چھے ماہ تھیں۔
کراچی سے براہِ راست فلائٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے دبئی سے میلبورن کا رُوٹ منتخب کیا تھا اور رات ٹھیک پونے گیارہ بجے کراچی سے دبئی کے لیے روانہ ہوگئے۔ اور پھر ایک گھنٹے پچاس منٹ کے سفر کے بعد دبئی ایمیریٹس ٹرمینل پراُترے۔ یہ ٹرمینل ویسے تو خاصا بڑا ہے، مگر ہمارے نقطۂ نظرسے اسے ویران ہی کہا جائے گا کہ یہاں، دبئی مین ٹرمینل جیسی رونق نہیں۔
ہماری اگلی فلائٹ میں کچھ دیرتھی، نیند غالب آرہی تھی، لہٰذا چائے پینے کا ارادہ کیا، مگرجب چائے کی تلاش میں نکلے، تو کراچی کی روایتی چائے کہیں نہیں ملی۔ ایک ہم درد نے رہنمائی کی کہ یہاں مِکسڈ چائے تو کہیں نہیں ملے گی، بس ’’تعویذ‘‘ (ٹی بیگ) والی ہی ملے گی اور دودھ کی جگہ بھی ٹی وائٹنر ہی ہوگا۔ مجبوراً اسی تعویذ والی چائے ہی پر اکتفا کرنا پڑا۔
چائے نوش کرنے کے بعد جب ادائی کرنا چاہی، تو نیند ویسے ہی کوسوں دُور بھاگ گئی، یعنی صرف ایک پیالی چائے کے تقریباً پانچ ہزارروپے۔ آخرکار، تین گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد اعلان ہوا کہ میلبورن جانے والے مسافربورڈنگ کے لیے جہازمیں تشریف لے جائیں۔
خوش قسمتی سے ہمیں جہاز میں ایسی سیٹس مل گئیں، جن کے آگے کوئی اور سیٹ نہیں ہوتی اور طویل سفر میں آپ قدرے آرام کے ساتھ پائوں پھیلا کربیٹھ سکتے ہیں۔ ائرہوسٹس کی سیٹ ہمارے سامنے ہی تھی، جب اس نے ہماری نواسی کو اپنی ماں کی گود میں بیٹھے دیکھا، تو فوراًہی ایک بیسینیٹ لے کر آگئی اور اُسے سامنے والی دیوار کے ساتھ لٹکادیا۔ اس میں لیٹنے کے بعد ننّھی میرال نے میلبورن تک کا پوراسفر انتہائی سکون و اطمینان سے سوتے ہوئے طے کیا۔ ہم جس جہاز میں سفر کررہے تھے، وہ دنیا کا سب سے بڑا بوئنگ۔A380تھا۔
اس میں تقریباً ساڑھے آٹھ سو مسافروں کی گنجائش ہوتی ہے،اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ بغیرکہیں رُکے پندرہ ہزارکلومیٹر تک سفر کرسکتا ہے۔ تقریباً 13گھنٹوں پر محیط اس سفر میں جہازکا عملہ وقتاً فوقتاً کھانے پینے کی اشیاء کی فراہمی میں خُود بھی مصروف رہا اور ہمیں بھی مصروف رکھا۔ سارا سفر سمندر پر ہونے اورہوا کے دبائو کے باعث جہاز ہچکولے بھی لیتا رہا، جس نے کھانے سے لُطف اندوز ہونے کا زیادہ موقع نہیں دیا۔
بہرکیف، سوتے، جاگتے، اُونگھتے سفر تمام ہوااورکچھ ہی دیر بعد میلبورن کے ہوائی اڈے پرجہاز کے اُترنے کے اعلان کے ساتھ ہی تمام مسافروں کو زرد پیلے رنگ کا ایک ایک کارڈ تھما دیا گیا۔ جس کا مقصد مسافروں سے یہ معلومات لینا تھا کہ کوئی اپنے ساتھ پولٹری، بیکری آئٹم یا کسی قسم کے کوئی پھل یا بیج تو لے کرنہیں جارہا ہے۔
ائرپورٹ پر اُترے تو حسبِ معمول امیگریشن میں مسافروں کی ایک لمبی قطار ہمارے سامنے تھی۔ متعلقہ عملہ بھی خاصا مستعد تھا، ہم جلد ہی وہاں سے فارغ ہوکر باہر جانے والی قطار میں کھڑے ہوگئے۔ وہاں ایک بار پھر ایک عہدے دار نے ممنوعہ سامان سے متعلق دریافت کیا، ہمارے انکار پر اس نے ہمارا شکریہ ادا کرتے ہوئے باہر جانے والی گرین لائن کی جانب اشارہ کردیا۔ اُس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے۔ ہمارے داماد، محسن نے جلدی جلدی سامان کو گاڑی میں ٹھونسا اور البری کی طرف روانہ ہوگئے۔ البری کا علاقہ ائرپورٹ سے چارگھنٹے کی مسافت پر ہے۔
علی الصباح گھر پہنچے، وقت کے فرق کے باعث شدید تھکاوٹ ہوگئی تھی، لہٰذا سارا دن آرام سے سوکر گزارنے کو ترجیح دی۔ اور پھر شام گئے بیدار ہونے کے بعد البری شہر دیکھنے نکل پڑے۔ البری، میلبورن سے سڈنی جانے والی ہائی وے پر مرے ریور کے کنارے پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔ یہ ریاست نیو سائوتھ ویلز کا ایک خُوب صُورت شہر ہے اور یہاں قلیل تعداد میں دیسی باشندے بھی آباد ہیں۔ یہاں کی ’’ہیوم لیک‘‘ اپنے صاف و شفّاف پانی اور بہترین محلِ وقوع کے باعث پورے آسٹریلیا میں سیّاحت کے لیے مشہور ہے۔
ویک اینڈ پر دُور دُور سے لوگ آکر یہاں سوئمنگ، کشتی رانی، کیمپنگ اور مچھلی کا شکار بھی کرتے ہیں۔ اگلے دن تازہ دَم ہوکر وہاں کے مشہور مقام ’’مورگن لک آئوٹ‘‘ کا رُخ کیا۔ یہ دراصل سفید گرینائٹ کے بلندوبالا قدرتی پتھر ہیں۔ 1860ء کی دہائی کا قصّہ ہے کہ ایک بدنام راہ زن میڈ مورگن ایک بڑے پتھر کی اوٹ میں بیٹھ کر وہاں سے گزرنے والوں کو لُوٹ کر بے دردی سے قتل کردیا کرتا تھااور پھر پولیس پر نظر رکھنے کے لیے اس بڑے پتھرپر چڑھ کربیٹھ جاتا تھا۔
اس شاطرراہ زن کی گرفتاری اور اسے کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے پولیس نے سخت تگ و دو کی، بالآخرایک روز اُسے مقابلے میں ہلاک کردیا۔ اور یوں وہاں کے لوگوں کی اس خطرناک راہ زن سے جان چھوٹی۔2018ء میں حکومت نے اس جگہ کی بحالی کا منصوبہ بنا کر اسے ایک تفریحی مقام کا درجہ دے دیا۔ خاص طور پر اس بڑے پتھر تک جانے کے لیے لوہے کی سیڑھیاں بنادی گئی ہیں۔ البری آنے والے اس جگہ ضرور جاتے ہیں۔ شام کے سائے ڈھل رہے تھے، سردی بھی بڑھنے لگی تھی اور کچھ تھکاوٹ بھی محسوس ہورہی تھی۔ سو، واپسی کی راہ لی۔
راستے میں سڑک کے دونوں طرف وسیع و عریض فارم میں سفید بھیڑوں کے غول ہی غول نظرآرہے تھے۔ یاد رہے کہ آسٹریلیا دنیا میں زندہ مویشیوں کا سب سے بڑا ایکسپورٹرہے۔ جانوروں کے حقوق کے علَم بردار اس تجارت کے خلاف اکثراحتجاج بھی کرتے ہیں۔ اسی طرح آسٹریلین گائے کے بھی فارم ہیں، جو دنیا بھر میں دودھ کی سب سے زیادہ پیداوار کے لیے مشہور ہیں۔ پون گھنٹے کے سفر کے بعد گھر پہنچے، گرما گرم چائے کے ساتھ پاکستانی مٹھائی نے لُطف دوبالا کر دیا، جس کا ذکر ہم اُس زرد کارڈ میں بھول گئے تھے اوریوں یہ امیگریشن کی نظروں سے بھی بچ گئی۔ ہمارا قیام چوں کہ مختصرعرصے کے لیے تھا، اس لیے اگلے روز ہی سڈنی جانے کا پروگرام بنالیا۔
ہیوم ہائی وے پر البری سے سڈنی کا فاصلہ 550کلو میٹر ہے اور کُل سفر تقریباً چھے گھنٹوں پر محیط ہے۔ پورا راستہ خُوب صُورت قدرتی مناظر سے بھرا نظر آتا ہے۔ اس علاقے میں سفر کے دوران کسی قسم کی بوریت محسوس نہیں ہوتی، جب کہ سفرکو دل چسپ بنانے کے لیے ہر پچاس کلومیٹر کے بعد ریسٹ ایریاز بنائے گئے ہیں، جہاں مختلف فوڈ کمپنیزکے آؤٹ لیٹس ہیں۔
ایک بڑی فوڈ چین ہنگری جیک اپنے کچھ آؤٹس لیٹ پرحلال فوڈز بھی مہیّا کرتی ہے۔ ہم چوں کہ حلال اور حرام کے حوالے سے کافی فکرمند رہتے ہیں، تواس ضمن میں وہاں برسوں سے مقیم ہمارے ایک دوست نے بتایا کہ آسٹریلیا، مشرقِ وسطیٰ اور خاص طور پر سعودی عرب کو گائے اور بھیڑ کے گوشت کا سب سے بڑا سپلائر ہے، اسی لیے یہاں بڑی بڑی فوڈ چینز پر بھی حلال گوشت سپلائی ہوتا ہے۔ ہم نے اُن کی بات تو سُنی، مگر دل کو اطمینان نہیں ہوا۔ جب تک کسی کھانے کی چیز یا ڈبے پر حلال کا سبز نشان نہ ہوتا، اس طرف منہ بھی نہیں کرتے۔
رات دس بجے ہم سڈنی پہنچ گئے، جہاں ہمارے داماد نے لیورپول کے علاقے کے ایک موٹل میں، جسے ٹاؤن ہائوس بھی کہا جاتا ہے، پہلے ہی سے آن لائن بکنگ کروائی ہوئی تھی۔ لیور پول، سڈنی سے قریباً پون گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ یہاں موجود خوب صورت ٹائون ہائوسز میںایک ٹائون ہائوس، تین بیڈ رومز پر مشتمل ہوتا ہے۔ جہاں کچن، ڈائننگ ٹیبل، ریفریجریٹر، ڈش واشرکے علاوہ کھانا پکانے کے لیے ضروری سامان اور انواع و اقسام کے برتن موجود تھے۔
ہم اپنی مرضی سے بھی کھانا پکا سکتے ہیں، لیکن جھنجھٹ سے بچنے کے لیے ہم نے آرڈر کرکے ایک پاکستانی ہوٹل سے رات کا کھانا منگوالیا، جس میں مٹن کڑاہی،چکن سیخ کباب اور چکن تکّے شامل تھے۔پردیس میں یہ کھانا بہت ہی لُطف دے گیا کہ بھوک بہت چمک گئی تھی اور قیمت بھی انتہائی مناسب لگی۔ اگلی صبح ناشتے کے لیےLakambe Street پہنچے تو برنچ کا وقت ہوچکا تھا۔ یہاں کے حلوہ پوری، مٹن پائے اور چنے بے حد لذیذ تھے۔ اس ہوٹل کے مالک، علی کا تعلق پاکستان سے ہے اور وہ بیس سال سے آسٹریلیا میں اس کاروبار سے منسلک ہیں۔ ناشتے کے بعد ہماری اگلی منزل ’’سڈنی اوپیرا ہائوس‘‘ تھی۔
سڈنی جانے والے سیّاح اور مسافر یہاں ضرور آتے ہیں۔ پارکنگ ایریا میں غیرمعمولی رش تھا۔ تاہم، تھوڑے انتظار کے بعد جگہ مل ہی گئی۔ سڈنی اوپیرا ہائوس، دراصل سڈنی ہاربر پر تعمیر کی گئی ایک عظیم الشّان عمارت ہے۔ اعلیٰ فن تعمیرکی یہ شاہ کار بلڈنگ، دنیا بھرمیں سڈنی کی شناخت بھی ہے۔ اس میں مختلف تھیٹرز، کنسرٹ ہالزہیں، جہاں ہر روزپرفارمنگ آرٹ کے لائیو شوز ہوتے ہیں اور جنہیں دیکھنے کے لیے تماشائیوں کا بے پناہ رش ہوتا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق سال بھر میں یہاں تقریباً1600شوز ہوتے ہیں۔ سڈنی اوپیرا ہائوس کے اندر اور باہرکھانے پینے کی بھی بہت سی جگہیں ہیں، جہاں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اپنے مَن پسند کھانوں کے ساتھ ساتھ موسیقی سے بھی لطف اندوز ہوتی ہے۔ ہم نے نسبتاً کم رش والی جگہ کاانتخاب کرکے سیڑھیوں پر کچھ دیر آرام کیا اور ساتھ ساتھ وہاں کے خُوب صُورت مناظر کیمرے میں محفوظ بھی کرتے رہے۔
سڈنی ہاربر کی ایک پہچان یہ بھی ہے کہ یہاں دنیا میں سب سے پہلے نئے سال کی خوشی میںزبر دست آتش بازی کا مظاہرہ ہوتا ہے،جسے براہِ راست دیکھنے کے لیے، شوقین خواتین و حضرات ایک روزقبل ہی بوریا بستر لے کریہاں آجاتے ہیں۔ نیوایئر نائٹ کے موقعے پر یہاں صحیح معنوں میں تِل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی، لیکن اس وقت ایسی کوئی بات نہیں تھی،بہت اطمینان و سکون کے ساتھ سیّاحت کے دوران وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ رات ڈھلتی جارہی تھی، اوپر سے محسن کے دوست کے فون پرفون بھی آرہے تھے، جنہوں نے ہمارے لیے رات کے کھانے کا انتظام کر رکھا تھا، لہٰذا یہاں سے اپنی اگلی منزل Auburn کا رُخ کرلیا، جہاں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد مقیم ہے۔
یہاں کی مرکزی شاہ راہ پر جا بہ جا پاکستانی، لبنانی اور انڈین ریسٹورنٹس موجود ہیں، مگر ہمارے لیے انھوں نے ایک خُوب صُورت سے پاکستانی ریسٹورنٹ میں انتظام کر رکھا تھا، جہاں ہماری تواضع میٹھی لسّی، دال ماش، چکن کڑاہی اورچکن کباب سے کی گئی۔ڈنر کا اختتام کڑک چائے کی ایک ایک پیالی پر ہوا، جس نے وطنِ عزیز کی یاد دلا دی۔
ایک خاص بات، جس پر حیرت بھی ہوئی کہ رمضان المبارک کی آمد کی خوشی میںAuburn اور Lakambe کے علاقوں میں چھوٹی،بڑی تمام شاہ راہوں کو خصوصی طور پر برقی لالٹینوں سے سجایا جاتاہے۔خوش آئند بات یہ ہے کہ آسٹریلین حکومت، مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کرتی اور اہم مواقع، خصوصاً عیدین پرمکمل سیکیوریٹی بھی فراہم کرتی ہے۔
اگلے روز سڈنی سے واپس البری کے لیے روانہ ہوئے، تو سورج پوری آب و تاب سے جلوہ گر تھا، وہاں ہمیں پہلی بار کچھ گرمی کااحساس ہوا۔ یہاں ماحول میں کسی قسم کی آلودگی کا نام و نشان نہ ہونے کی وجہ سے سورج سے خارج ہونے والی الٹراوائلٹ شعائوں کی شدّت خاصی زیادہ ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ یہاں جِلد کا کینسر بہت عام ہے۔ ابھی ہم نے آدھا سفر ہی طے کیا تھا کہ آسمان یکایک سیاہ بادلوں سے ڈھک گیا اورطوفانی بارش شروع ہوگئی۔ محسن ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہوئے بغیرگاڑی چلاتے رہے اور ہم کراچی کی بارش اور اس کے بعد کے بھیانک ٹریفک جام کو یاد کرتے رہے۔
انھوں نے بتایا کہ یہ تو بڑی ہائی وے ہے، ہم نے توآج تک کسی چھوٹی سڑک پر بھی بارش کا پانی جمع ہوتے نہیں دیکھا۔راستے میں ایک جگہ گاڑی روک کر برگر کی ایک بڑی چین سے چکن برگرز لیے اور اپنا سفر جاری رکھا۔اسی دوران ہم نے تھکن کے باعث کچھ نیند لینے کے لیے آنکھیںبند کی ہی تھیں کہ اچانک گاڑی کی بریکس کی زوردار آواز اور پھر زوردار جھٹکے سے گھبرا کر اُٹھ بیٹھے۔
بدحواسی کے عالم میں سامنے دیکھا، تو سڑک کے بیچوں بیچ چار پانچ دیو ہیکل کینگروزبڑے اطمینان سے گاڑی کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے۔محسن نے ہمیں بتایا کہ’’ سڑک پر اچانک آجانے والے یہ کینگروز گاڑی کی روشنی دیکھ کر وہیں رُک جا تے ہیں اور اسی باعث اکثرگاڑ یوں سے ٹکرا بھی جاتے ہیں۔ خاص طور پر سردیوں کے موسم میں یہ جنگل سے نکل کر سڑک پر بیٹھ جاتے ہیں، جو نسبتاًگرم ہوتی ہے۔ اس جانور کی نسل کو معدومی سے بچانے کے لیے حکومت نے سڑکوں کے کنارے، جہاں جہاں کینگروز کی موجودگی کا ا مکان ہو سکتا ہے ، محتاط ڈرائیونگ کے بڑے بڑے سا ئن بورڈز لگا رکھے ہیں۔‘‘
وطن واپسی کے لیے ہماری فلائٹ صبح آ ٹھ بجے کی تھی، جس کے لیے ہم رات گیارہ بجے البری سے نکل کھڑے ہوئے۔محسن ہمیں ائرپورٹ تک ڈراپ کر کے واپس چلے گئے ۔وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ فلائٹ تین گھنٹے لیٹ ہے۔جس تھکاوٹ سے بچنے کے لیے ہم نے نئے رُوٹ کا انتخاب کیاتھا، وہ یہاں بھی ہماراانتظار کر رہی تھی۔
خیر، طویل انتظار کے بعد آخرکار اعلان ہوا کہ کوا لا لمپور براستہ بالی جانے والی پرواز روانگی کے لیے تیار ہے۔ تقریباً ساڑھے پانچ گھنٹے کے سفر کے بعد جہاز نے ہمیں Danpesar ائر پورٹ پہنچادیا، جو اس خطے کا ایک مصروف ائر پورٹ ہے۔جہاز کے تقریباً سارے مسافر وہاں اُتر گئے اور صرف پانچ مسافر اندر رہ گئے۔
نئے مسافروں کے آنے کے بعد جہاز نے پھر اُڑان بھری اور پونے تین گھنٹےبعد ہمیں کوالالمپور انٹرنیشنل ائر پورٹ پہنچادیا۔ہمیں خدشہ تھا کہ ہماری پرواز تین گھنٹے لیٹ ہے، اس لیے کہیں ہم کراچی کی فلائٹ مِس نہ کر جائیں، یہ سوچ کر جونہی جہاز سے باہر آئے ایک ملائشین دوشیزہ نے اپنے مخصوص اندازمیں ہاتھ جوڑ کر سلام کیا اور ساتھ ہی ہمارا نام پُکار کر کراچی والے گیٹ کی طرف اشارہ کردیا کہ جہاں جہاز بالکل تیار کھڑا تھا۔ اور ہمارے اندر داخل ہوتے ہی دروازہ بند ہوگیا۔ مطلب، طیارہ فوراًہی کراچی کی طرف روانہ ہوگیا، جہاں ہمارے اپنے بانہیں کھولے ہمارے منتظر تھے۔