خیّامُ الپاک ظفر محمّد خان ظفرؔ
اِس وقت دُنیا بَھر کی نظریں چین کے قمری مِشن، ’’چانگ،ای۔ 6‘‘ پرمرکوز ہیں، جو فرانس، سویڈن، اٹلی اور پاکستان کے ’’پے لوڈز‘‘ یعنی سائنسی آلات سے لیس ہوکر مؤرخہ3؍ مئی 2024ء کو چین کے جنوب میں واقع شہر، ہینان کے لانچنگ پیڈ سے چینی خلائی راکٹ کے ذریعے چاند کے سفر پر روانہ ہوا۔ چین کے متذکرہ خلائی راکٹ کا قطر5میٹر اور طوالت57 میٹر ہے۔ اس راکٹ کی توانائی کا سرچشمہ یعنی ایندھن مائع ہائیڈروجن اور آکسیجن ہے۔
سائنسی آلات کے بغیر چینی راکٹ کا وزن ساڑھے 8 لاکھ کلو گرام ہے۔ چین کے اس مِشن کے سائنسی آلات کا مجموعی وزن8200 کلو گرام ہے، جب کہ اس مِشن میں چار اسپیس کرافٹس شامل ہیں، جو اِسے مطلوبہ مقام تک پہنچانے میں معاون ثابت ہوں گے۔ چین کا یہ خلائی راکٹ دن12 بج کر50 منٹ پر داغا جانا تھا، لیکن موسم کی خرابی کی وجہ سےڈھائی بجے داغا گیا۔
یہ خلائی راکٹ زمین سے چاند کا 3,84,400 کلومیٹر کا طویل فاصلہ طے کر کے8 مئی 2024ء کو کام یابی کے ساتھ چاند کے جنوبی عقبی حصّے پر اُترا اور وہاں فرانس، اٹلی اور سویڈن کے سائنسی آلات نصب کرنے میں مصروفِ عمل ہوگیا۔ یہ ممالک جنوبی قمر کے عقبی حصّے میں بالترتیب Radon، Passive Laser Retro reflectorاور Negative ions on the Lunar Surfaceکی پیمائش میں گہری دِل چسپی رکھتے ہیں۔
پاکستان نے آٹھ کلوگرام وزنی جو سائنسی آلات چین کے قمری مِشن کے لیے چین کو بروقت فراہم کیے، اُن میں ایک کیوبِک سیٹیلائٹ، دو آپٹیکل کیمرے، دو سولر پینلز اور ایک 12 والٹز کی بیٹری شامل ہے، جب کہ اس میں کمیونی کیشن سسٹم بھی نصب کیا گیا ہے، جس کا ڈیٹا ٹرانسفر ریٹ ایک کلو بائٹ فی سیکنڈ ہوگا۔
جب سیٹیلائٹ چاند کے روشن حصّے سے گزرے گا، تو اُس وقت سولر پینلز نہ صرف سیٹیلائٹ کے نظام کو انرجی فراہم کریں گے بلکہ ساتھ ہی بیٹری بھی چارج کریں گےاور جب سیٹیلائٹ چاند کے عقبی تاریک حصّے سے گزرے گا، تو بیٹری، سسٹم کو توانائی مہیّا کرے گی۔
واضح رہے کہ چین کا خلائی راکٹ چاند کے مدار میں داخل ہوتے ہی پاکستان کا سیٹیلائٹ ’’آئی کیوب قمر‘‘ چین کے قمری مِشن، ’’چانگ، ای۔ 6‘‘ سے جدا ہوگیا اور اُس نے چاند کی کششِ ثقل کے زیرِ اثر چاند کے مَدار میں چکر لگانا شروع کردیے۔ بلاشُبہ یہ بہ ذاتِ خُود ایک بڑی کام یابی ہے، جس کا سہرا پاکستان کے قومی خلائی ادارے، ’’سُپارکو‘‘ کے سائنس دانوں، انجینئرز اور چین کی شنگھائی یونی ورسٹی کےطلبہ کو جاتا ہے۔
یاد رہے کہ سُپارکو کے Institute of Space Technology (IST) اور چین کی شنگھائی یونیورسٹی کے باہمی اشتراک سے پاکستان کے پہلے سیٹیلائٹ، ’’آئی کیوب قمر‘‘ کا ڈیزائن وجود میں آیا ہے۔ پاکستان کے پہلے سیٹیلائٹ، ’’آئی کیوب قمر‘‘ کےدو آپٹیکل کیمروں سے8 مئی2024 ء کو لی گئی چاند، سورج اور زمین کی تصاویر بھی سُپارکو، اسلام آباد کے IST وِنگ کوموصول ہوچُکی ہیں۔ چاند کے مدارمیں بھیجے گئے پاکستان کے پہلے سیٹیلائٹ کی عُمر کا اندازہ 3 تا 6 ماہ لگایا گیا ہے۔ عُمر کے تعیّن کا انحصار سولر پینلز اور بیٹری کے استعمال پر ہوگا۔
چاند کے مدار کاچکر لگانے والےپاکستان کے پہلے سیٹیلائٹ یعنی مصنوعی سیّارے پر سُپارکو کے سائنس دان اور انجینئرز اہلِ پاکستان کی دلی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ توقّع ہے کہ چین کا خلائی راکٹ، چین کے قمری مشن کی تکمیل کے بعد ان سطور کی اشاعت تک زمین پر واپس لینڈ کرچُکا ہوگا، جو اپنے ساتھ چاند کی مٹی اور چٹانوں کے نمونے بھی لائے گا۔
ان نمونوں پر تحقیق سے چینی سائنس دان چاند کی ساخت، تاریخ اور تشکیل سے متعلق چونکا دینے والے انکشافات کرسکتے ہیں، نیز، متذکرہ بالا دیگر چار ممالک بھی اس قابل ہوجائیں گے۔ اگر چاند کے جنوبی عقبی حصّے (جو ہمیشہ تاریک رہتا ہے) سے لائے گئے مٹی اور چٹانوں کے نمونوں میں پانی پایا جاتا ہے، تو یہ زندگی کی علامت کا مظہر ہوگا۔ یوں، چین اِس تحقیق میں سبقت لے جاسکتا ہے۔
چاند کا روشن چہرہ تو صدیوں سے انسان کا دل موہتا چلا آیا ہے، لیکن چاند کا عقبی تاریک رُخ کبھی سامنے نہیں آیا۔ چاند کے روشن رُخ کا درجۂ حرارت اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ اگر اُس پر پانی سے لب ریز بالٹی اُلٹ دی جائے ،تو پانی آنِ واحد میں بھاپ بن کر اُڑ جائے گا ،جب کہ چاند کے عقبی تاریک رُخ کا درجۂ حرارت اِس قدر کم ہوتا ہے کہ اگر وہی پانی سے بھری بالٹی یہاں اُلٹ دی جائے، تو پانی ایک آن میں منجمد ہو جائے گا۔
یہاں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ مستقبل میں وہی اقوام باعزّت طور پر جینے کا حق رکھیں گی، جو سائنسی میدان میں آگے ہوں گی۔ وہ اقبال نے کہا تھا ناں کہ ؎ اقبالؔ ترے بندۂ مومن کی ہے یہ شان … اِک ہاتھ میں تلوار، تو اِک ہاتھ میں قرآن۔ تو یہاں تلوار سائنسی میدان کی قوّت اور ترقّی یافتہ ہونے ہی کی علامت ہے۔ مضمون کا اختتام اپنےقطعے پر کرتا ہوں ؎ آخرش! یہ خواب بھی آج سچّاہوگیا … دل تھا قید صدیوں سے چاند کے پیار میں … پاک چین دوستی، اے خدا! زندہ باد … ’’پاک سیٹ‘‘ رقصاں ہے، چاند کے مَدار میں۔