ایک ایسے موقع پر جب سی پیک کو خطرات لاحق ہیں اور ٹی ٹی پی اور بلوچ شدت پسند چینیوں اور سی پیک کونشانہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں، ریاست کی یہ مجبوری بن چکی ہے کہ ایسے عناصر سے انٹیلی جنس بیس آپریشن کے ذریعے چھٹکارا پایا جائے۔ جیسے ہی ریاست نے آپریشن کا اعلان کیا، اچانک امریکہ میں 8فروری کے انتخابات کی شفاف انکوائری کرنے کے حوالے سے ایک قرار داد پاس کردی گئی جو یقینی طور پر پاکستان کے داخلی معاملات میں کھلی مداخلت ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد پاکستان کو پریشر میں لینے کی ایک چال ہے۔ دوسری طرف چند معزز جج جس طرح پی ٹی آئی کو ریلیف دے رہے ہیں وہ بھی ہر حوالے سے تاریخی ہے ۔خیر یہ آج کا موضوع نہیں۔اس وقت امریکہ، پی ٹی آئی ایک پیج پر نظر آرہے ہیں ۔دوسری طرف اگرچہ چینیوں کی طرف سے یقینی طور پر چند خدشات ظاہر کیے گئے ہیں جن میں ضرور پی ٹی آئی کی سی پیک مخالف سیاست،ٹی ٹی پی اور بلوچ شدت پسندوں کے چینیوں پر حملے شامل ہیں ، ایک تاثر بنایا جارہا ہے کہ یہ آپریشن چینی حکومت کے کہنے پر ہورہا ہے اور شاید اس لیے بھی پی ٹی آئی زیادہ مخالفت کررہی ہے کیوں کہ پی ٹی آئی امریکی اشیرباد حاصل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ حکومت کو چاہیے کہ اس تاثر کو ختم کرنے میں کردار ادا کرے کیوں کہ حالیہ دنوں میں پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں نہ صرف اضافہ ہوا ہے بلکہ کچھ فوٹیجز میں افغان طالبان پاکستانی سرحد پر لگی باڑ کو کاٹ کر ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کو پاکستان میں داخل کرتے ہوئے بھی نظر آرہے ہیں ۔جبکہ ہر چند دن بعد ہماراکوئی نہ کوئی فوجی افسر اور جوان شہید ہورہاہے۔دہشت گردی نے ہماری قومی سلامتی اور معصوم شہریوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔یہ واقعی ہماری جنگ ہےاور یہ ہمارے قومی مفاد میں ہے کہ انسداد دہشت گردی کے اقدامات شروع کیے جائیں جو ریاست کی رٹ پر سوال اٹھانے پر تلے ہوئے مذموم عناصر کو ختم کرنے میں مدد کریں۔ ساتھ ہی حکومت پی ٹی آئی کو اعتماد میں لینے کی بھی کوشش کرے جس کا یقینی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہونا لیکن پھر بھی حکومت آپریشن کے مخالفوں سمیت خاص طور پر ملک کے ان حصوں میں رہنے والوں جو انسداد دہشت گردی مہم سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے، کویقین دلائےکہ کوئی بھی شہری اپنے گھروں سے محروم نہیں ہوگا اور نہ ہی یہ آپریشن کسی خاص علاقے میں کیا جائے گا، اس آپریشن کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ قومی اتفاق پیدا کیا جائے جو میرے خیال میںپی ٹی آئی کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں ۔اس سلسلے میں، پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کے علاوہ، جیسا کہ اپوزیشن جماعتوں کا مطالبہ ہے، یہ ضروری ہے کہ حکومت آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بھی بلائے۔واضح رہے کہ قومی اہمیت کے حامل واقعات کے دوران اے پی سی نے اتحاد کا احساس پیدا کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے، جیسا کہ اے پی ایس کے قتل عام کے فوراً اےپی سی بلائی گئی۔ ہماری مسلح افواج اور سیکورٹی اداروں کو اس وقت ہماری بھرپور حمایت کی ضرورت ہے، ہمیں بحیثیت قوم ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہونا ہوگا تاکہ دہشتگردی کی لعنت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔اس کے ساتھ ہی اپوزیشن جماعتوں کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ قومی سلامتی کی موجودہ حالت ناقابل برداشت ہے اور صرف سیاسی وجوہات کی بنا پر انسداد دہشت گردی مہم پر کسی بھی قسم کی تنقید سے گریز کرنا چاہیے۔پی ٹی آئی اور مولانا فضل الرحمن کی جانب سے آپریشن کی مخالفت یقینی طور پر افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کی حمایت کرنے کے مترادف ہے۔ قوی امید ہے کہ آپریشن عزم استحکام کے غیر فوجی پہلو نفرت کے اس ماحول کو ختم کرنے پر توجہ مرکوز کریں گے جو گزشتہ برسوں میں تیار ہوا ہے، جس نے پاکستانی معاشرے کو ہر طرح کے انتہا پسندانہ نظریے کے لیے ایک زرخیز افزائش گاہ میں تبدیل کردیا ہے۔آپریشن کے ساتھ ساتھ حکومت ایسے اقدامات بھی کرے جس سے معاشرے میں انتہا پسندی کا خاتمہ ہو۔ ہم صرف مذہبی حوالے سے انتہا پسند نہیں بلکہ سیاسی اور لسانی بنیادوں پر بھی انتہا پسندانہ سوچ رکھنے کےقائل ہیں اور ایسی سوچ کو کسی آپریشن سے ختم نہیں کیا جاسکتا، یقینی طور پر آپریشن عزم استحکام سے دہشتگردوں کے ٹھکانوں اور سہولت کاروں کو ختم کرنا مقصود ہے مگر اس سے زیادہ ہمیں انتہا پسند سوچ کو ختم کرنے کے لیے اپنے تعلیمی نظام میں اصلاحات کرنا ہوں گی تاکہ ہمارے نوجوان صحیح اور غلط کے فرق کو پہچان سکیں ورنہ پھر کوئی مسیحا تبدیلی کے نام پر نوجوانوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلتا نظر آئے گا۔