دینِ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جس نے اولادِ آدمؑ ہونے کے ناتے تمام انسانوں کو انصاف اور برابری کی بنیاد پر تمام حقوق عطا کیے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی رُو سے کسی بھی فرد کو قوم، قبیلے، برادری یا رنگ و نسل کی بنیاد پر دوسرے فرد پر فوقیت حاصل نہیں۔
تاہم، وطنِ عزیز میں مذہب کے نام پر پھیلائے جانے والے نفرت اور تشدّد آمیز رویّوں کی وجہ سے نہ صرف ہمارا سماج داغ دار ہو رہا ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اسلام اور پاکستان سے متعلق منفی پروپیگنڈے میں اضافہ ہو رہا ہے۔
نیز، عدم برداشت اور انتہا پسندی ہماری معاشی ترقّی کی راہ میں بھی رکاوٹ بنی ہوئی ہے، جب کہ مذہب، فرقے اور مسلک کی بنیاد پر رُونما ہونے والے خُوں ریز واقعات کے سبب ہماری جگ ہنسائی الگ ہو رہی ہے۔ بہ حیثیتِ مسلمان ہم خود کو امن و سلامتی کا داعی قرار دیتے ہیں، لیکن درحقیقت مُلک میں بسنے والے غیر مسلموں کے ساتھ ہمارا رویّہ غیر منصفانہ ہے اور اس ضمن میں کئی مثالیں موجود ہیں۔
ایسے میں ایک پُر امن اور مہذّب پاکستانی معاشرے کی تشکیل کے لیے ہمیں اپنے رویّوں کی اصلاح کرنا ہو گی اور اس سلسلے میں نبیٔ کریم ﷺ کی حیاتِ طیبہ ہمارے لیے ایک بھرپور عملی نمونہ ہے۔ نیز، اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی مُلک میں پائے دار امن قائم کیا جا سکتا ہے۔
پاکستانی معاشرے کو اعتدال، میانہ روی، صبر و برداشت اور باہمی رواداری جیسی صفات سے متّصف کرنے کے لیے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ یاد رہے کہ دینِ اسلام ایک پُر امن اور متوازن معاشرے کی تشکیل کا متقاضی ہے اوریہ بین المذاہب ہم آہنگی اور بھائی چارے کے فروغ کا حُکم دیتا ہے۔ اب جہاں تک قومی یک جہتی کا تعلق ہے، تو اس سے مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ اقلیتیں غالب اکثریت کی تہذیب میں مدغم ہو جائیں اور اُن کی انفرادیت ختم کر کے قومی ہم آہنگی اور یک جہتی قائم کرنے کا دعویٰ کیا جائے۔
درحقیقت، قومی یک جہتی کا مطلب یہ ہے کہ مقصدیت کے پیشِ نظر ثقافتی تنوّع اور رنگا رنگی برقرار رکھتے ہوئے رابطے اور اتحاد کی فضا ہم وار کی جائے، تاکہ انسانیت کے دشمنوں کو منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔ واضح رہے کہ دینِ اسلام ایک ایسے نظامِ زندگی کی ضمانت دیتا ہے کہ جس میں مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلموں کی عزّت و ناموس بھی محفوظ ہو۔
اسلام کسی بھی صُورت عدل و انصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے کی اجازت نہیں دیتا اور بین المذاہب ہم آہنگی کا تقاضا ہے کہ ایک مسلم ریاست میں بسنے والے غیر مسلموں کے ساتھ کسی قسم کا امتیازی سلوک نہ کیا جائے تاکہ اسلامی مملکت ایک فلاحی ریاست کی جیتی جاگتی مثال بن سکے۔
رسالتِ مآب حضرت محمدﷺ نے اپنے عہدِ رسالتؐ میں بین المذاہب ہم آہنگی کا عملی ثبوت فراہم کرتے ہوئے تمام غیر مسلموں کو عزّت و احترام سے زندگی بسر کرنے کی ضمانت دی اور انہیں ہر طرح کے مساوی حقوق عطا فرمائے۔ علاوہ ازیں، غیر مسلموں کو اس بات کی ضمانت بھی دی گئی کہ ان کے حقوق کا تحفّظ اسلامی ریاست کی ذمّے داری ہو گی اور اگر کسی مسلمان نے کسی غیر مسلم کا قتل کیا، تو بدلے میں اس مسلمان کو قتل کیا گیا تاکہ یہ قصاص عوام النّاس کے لیے باعثِ عبرت ہو اور آئندہ کوئی مسلمان کسی غیر مسلم کے ساتھ ظلم و زیادتی کی جرأت نہ کر سکے۔ حضورِ اکرمﷺ نے پوری انسانیت کو اللہ تعالیٰ کا کُنبہ اور تکریمِ انسانیت کو رضائے الہٰی کا ذریعہ قرار دیا۔
رسولِ اکرم ﷺ نے بہ نفسِ نفیس متعدّد مرتبہ نہ صرف غیر مسلموں کی تکالیف کا سدباب کیا بلکہ علالت کی صُورت میں اُن کی عیادت کے لیے بھی تشریف لے گئے۔ ان ہی روایات سے استدلال کرتے ہوئے فقہاء کرام نے غیر مسلموں کی عیادت کو جائز قرار دیا ہے اور غیر مسلموں کے ساتھ سماجی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دی ہے۔ نیز، آپﷺ اہلِ کتاب کی دعوت بھی قبول کیا کرتے تھے۔ معاشرے کو امن کا گہوارہ بنانے کے لیے اسلامی تعلیمات کی دُرست تشریح پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
علاوہ ازیں، نصابِ تعلیم میں قرآن و حدیث پر مبنی ایسا مواد شامل کیا جانا چاہیے کہ جس میں تکریمِ انسانیت اور بین المذاہب ہم آہنگی کا پیغام شامل ہو۔ نیز، ریاست کو مختلف مذاہب، مسالک اور فرقوں کے پیروکاروں کے درمیان پائے جانے والے عدم برداشت اور عدم تشدّد کے رویّوں کی بیخ کنی کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس ضمن میں مُلک میں بسنے والے افراد کے درمیان محبّت و رواداری کے فروغ کے لیے مختلف مذاہب اور مسالک سے تعلق رکھنے والے افراد کے مابین مباحثے اور مکالمے کا اہتمام کیا جانا چاہیے، تاکہ ایک دوسرے کے مؤقف کو سمجھنے میں مدد مل سکے اور پُر امن بقائے باہمی کے اصول کے تحت معاشرے میں امن و سکون کا حصول ممکن ہو ۔
مزید برآں، نبیٔ کریم ﷺ کی سیرتِ طیّبہ کے مؤثر ابلاغ کو یقینی بنایا جائے، تاکہ مسلمانوں کے ساتھ غیر مسلم بھی اسلامی تعلیمات کی حقّانیت سے رُوشناس ہو سکیں اور اسلام سے متعلق منفی پروپیگنڈے کا سدِ باب ہو۔