گزشتہ دنوں فرانس میں ہونے والے قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت، نیشنل ریلی پارٹی، جب کہ دوسرے مرحلے میں بائیں بازو کا اتحاد پہلے نمبر پر رہا ، لیکن کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہ کر سکی۔ فرانسیسی وزارتِ داخلہ کی طرف سے اعلان کردہ انتخابی نتائج کے مطابق بائیں بازو کی 4 جماعتوں پر مشتمل اتحاد، نیو پیپلز فرنٹ اتحاد نے سب سے زیادہ 178نشستیں حاصل کیں۔
ایمانوئیل میکرون کا اتحاد 150اور انتہائی دائیں بازو کا نیشنل یونٹی الائنس 125نشستوں کے ساتھ پارلیمان میں داخل ہوا۔ انتخابات میں ووٹنگ کی شرح 66.6فی صد ریکارڈ کی گئی اور کوئی بھی اتحاد یا پارٹی پارلیمنٹ میں 289ارکان کی قطعی اکثریت تک نہیں پہنچ سکی۔
انتخابات میں میکروں اتحاد کی پارلیمان میں نشستوں کی تعداد250سے کم ہو کر150رہ گئی ہےاور انتہائی دائیں بازو کی جماعت ، نیشنل ریلی کے ارکان کی تعداد 89سے بڑھ کر 125ہو گئی، بائیں بازو کے اتحاد کی نشستوں کی تعداد 150سے بڑھ کر 178ہو گئی۔
پارلیمانی انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی جماعت، نیشنل ریلی کو ملنے والی نشستوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس پارٹی کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، جب کہ یورپی یونین کے انتخابات میں بھی اسی جماعت کو فتح حاصل ہوئی تھی، جس کے بعد صدر میکرون نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کردیا تھا۔
واضح رہے کہ فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی قوم پرست جماعت، نیشنل ریلی پارٹی کی بڑھتی مقبولیت مسلم کمیونٹی کے لیے ایک انتباہ ہے، کیوں کہ عالمی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے مبصّرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ قوم پرست جماعت جب بھی برسرِ اقتدار آئے گی، فرانس میں مقیم تارکینِ وطن کے لیے سخت گیر پالیسیاں بنائے گی، نیز مسلم کمیونٹی اس کا خاص ہدف ہو گی۔ تاہم، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فرانس میں قوم پرستوں کی حکومت قائم ہو گئی، تو وہاں مقیم دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد زیرِ عتاب کیوں نہیں آئیں گے؟ اور زیرِ نظر مضمون میں اسی سوال کا جواب دیا جا رہا ہے۔
تاہم، مزید تفصیل میں جانے سے پہلے ایک مثال دیکھ لیجیے۔ فرض کریں ، بھارت سے چند ہزار ہندو نقل مکانی کر کے پاکستان میں رہائش اختیار کرتے ہیں اور پھر چند برس یہاں گزارنے کے بعد کسی بڑے شہر کی مرکزی شاہ راہ پر جمع ہو کر حکومتِ پاکستان سے پورے مُلک میں ہندو دھرم کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ تو کیا بھارت سے نقل مکانی کر کے آنے والے ان ہندوئوں کا یہ مطالبہ پاکستانی مسلمانوں کے لیے قابلِ برداشت ہو گا ؟
ہرگز نہیں، بلکہ ممکن ہے کہ اس مطالبے پر فسادات ہی پُھوٹ پڑیں۔ توبات یہ ہے کہ امریکا، کینیڈا اور فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک میں سکونت اختیار کرنے والے ہندو، سِکھ، یہودی یا بودھ مت کے پیروکار ان ممالک کی حکومتوں سے اپنے مذہب نفاذ کا مطالبہ نہیں کرتے، جب کہ گزشتہ چند برسوں سے فرانس میں مقیم مسلمان تارکینِ وطن کی نئی نسل وہاں اسلامی نظام نافذ کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ فرانس میں رہنے والی اکثریت کا ایک الگ طرزِ زندگی ہے، جب کہ فرانسیسی مسلمان یہ چاہتے ہیں کہ یہاں رہنے والے تمام باشندے اُن ہی کی مانند زندگی گزاریں اور فرانسیسی مسلمانوں کی یہی سوچ اُن کے اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان نفرت اور دُوریاں پیدا کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ مغربی ممالک کے باشندے شخصی آزادی کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی جانب سے فرانس میں اسلامی شریعت نافذ کرنے کے مطالبات مغربی اقوام کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتے جارہے ہیں اور مغربی باشندے اب برملا یہ کہنے لگے ہیں کہ اگر مسلمان اسلامی شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں، تو وہ کسی اسلامی مُلک کیوں نہیں چلے جاتے، جب کہ بعض طبقات یہ خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر فرانس سمیت دیگر مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں نے اپنی روش تبدیل نہ کی، تو ایک روز مسلمانوں کا مغربی ممالک میں داخلہ ہی بند کر دیا جائے گا۔
دوسری جانب مغربی اقوام کی جانب سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر مسلمانوں کو مغربی تہذیب میں خؒامیاں ہی خامیاں دکھائی دیتی ہیں، تو پھر یہ مغربی ممالک کا رُخ کیوں کرتے ہیں ۔ ان کے بہ جائے یہ افغانستان کی، جہاں ’’ایک خالص اسلامی ریاست‘‘ وجود میں آچُکی ہے، شہریت لینا کیوں پسند نہیں کرتے؟
واضح رہے کہ 2019ء میں پولینڈ حکومت نے مسلمان پناہ گزینوں کے، اپنے مُلک میں داخلے پر پابندی عاید کر دی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس سے قبل سوئیڈن نے بڑی تعداد میں مسلمان مہاجرین کو پناہ دی تھی اوراُن کی حکومت کے بقول ،اس کے بعد سوئیڈن میں جرائم کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا۔
علاوہ ازیں، گزشتہ چند برسوں میں یورپی ممالک میں مقیم مسلمانوں میں یہ رجحان بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ جب وہاں کسی مسلمان کو کوئی سنگین جُرم کرنے پر گرفتار کیا جاتا ہے، تو یورپین مسلم کمیونٹی فوراً اس واقعے کو ’’اسلاموفوبیا‘‘ سے جوڑ دیتی ہے۔ نتیجتاً، اب مغربی ممالک میں یہ احساس پیدا ہو رہا ہے کہ مسلمان اپنے جرائم کو ’’اسلامو فوبیا‘‘ کے پیچھے چُھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ماضی میں جب یورپ کے عیسائیوں اور یہودیوں میں ایک دوسرے کے لیے پائی جانے والی نفرت شدّت اختیار کر گئی تھی، تو اس کا نتیجہ ہولو کاسٹ کی شکل میں برآمد ہوا تھا اور اگر اسی طرح اب مغرب میں مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے ماننے والے افراد کے درمیان نفرت بڑھتی رہی، تو پھر ایک اور ہولوکاسٹ جنم لے سکتا ہے، جس کا شکار مسلمان ہوں گے۔
یاد رہے کہ1992 ء سے1995 ء کے دوران سرب عیسائیوں کے ہاتھوں بوسنیا میں مسلمانوں کی بڑی پیمانے پر نسل کُشی ہوئی تھی اور اُس وقت بھی اسلامی دُنیا حسبِ معمول خاموش تماشائی بنی رہی۔
قصّہ مختصر، مغرب میں مقیم مسلمانوں کو خود کو حاصل شخصی و مذہبی آزادی کا غلط استعمال کرنے کی بہ جائے دیگر مذاہب کے ماننے والے افراد سے برداشت و رواداری کا سلوک کرنا چاہیے، بہ صُورتِ دیگر اُنہیں سخت نقصان اُٹھانا پڑ سکتا ہے۔