• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

٭مشتعل ہجوم نے قرآنِ حکیم کی بے حرمتی کے مبیّنہ الزام پر ایک شخص کو پولیس کے حوالے کرنے کی بجائے اِس قدر زدو کوب کیا کہ وہ جان کی بازی ہی ہار گیا۔

٭ایک پُر ہجوم سڑک پر دو کاروں کے درمیان ٹکر ہو گئی۔ ایک کار کے مالک نے گالم گلوچ کے بعد دوسرے کار سوار کو گولی مار دی، جس سے وہ شدید زخمی ہو گیا۔

٭لاہور میں ایک کم عُمر ڈرائیور نے دوسری کار میں بیٹھی فیملی کے ساتھ بدتمیزی کی۔ کچھ لوگوں نے معاملہ رفع دفع کروا دیا، لیکن کچھ ہی دیر بعد کم عُمر کار ڈرائیور نے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ اپنی کار اُس فیملی کی گاڑی سے ٹکرا دی، جس کے نتیجے میں 6افراد جاں بحق ہو گئے۔

٭ مالکِ مکان کی کرائے کے تنازعے پر کرائے دار سے تُو تُو، مَیں مَیں ہو گئی۔ مالک مکان نے عدالت جانے کی دھمکی دی، تو کرائے دار گھر سے پستول نکال لایا اور فائرنگ کر کے اُسے زخمی کر دیا۔

٭ ایک جاگیر دار کو اپنی بہن پر غصّہ تھا کہ اُس نے نچلی ذات کے ایک نوجوان سے دوستی کیوں کر لی۔اُس نے ایک بار دونوں کو باغ کے ایک کونے میں باتیں کرتے دیکھا، تو فوراً بندوق اُٹھا لایا اور فائرنگ کرکے دونوں کو موقعے پر ہلاک کر دیا۔

٭ایک دیہات میں دو افراد کے درمیان لین دین کے معاملے پر جھگڑا چل رہا تھا۔ بات بڑھی، تو ایک نے دوسرے سے متعلق نازیبا کلمات کہے، جس پر دوسرے شخص نے طیش میں آکر اُسے شدید زدو کوب کرنا شروع کر دیا اور اگر لوگ بیچ بچاؤ نہ کرواتے، تو جانی نقصان بھی ہوسکتا تھا کہ وہ تو مارنے مرنے پر تُل گئے تھے۔

٭ایک گھر میں میاں بیوی کے درمیان اکثر جھگڑا رہتا تھا۔ ایک روز بیوی نے شوہر کی والدہ سے متعلق نامناسب الفاظ کہے۔ یہ بحث مباحثہ باورچی خانے میں ہو رہا تھا۔میاں کو اِتنا غصّہ آیا کہ اُس نے سبزی کاٹنے والی چُھری سے وار کر کے بیوی کو شدید زخمی کر دیا۔ 

٭ایک زمین دار کو پتا چلا کہ اُس کے کھیت سے ایک نو عُمر لڑکا مُولیاں چوری کر کے لے جا رہا ہے۔ وہ موقعے پر پہنچا اور لڑکے پر خون خوار کتّے چھوڑ دئیے۔

٭ایک شخص نے دوسرے شخص کو محض اِس لیے قتل کر دیا کہ وہ اُسے مسلسل گھورے جارہا تھا۔

٭بے روزگار ی سے تنگ ایک شخص کو معاشرے میں ہونے والی نا انصافیوں پر غصّہ تھا۔ اُس کا بلڈ پریشر ہر وقت ہائی رہتا۔ اُس نے ملازمت کے لیے ایک سرکاری محکمے میں درخواست دے رکھی تھی۔ اُس کا انٹرویو اور ٹیسٹ بہترین ہوا تھا، لیکن معلوم ہوا کہ اُس کی جگہ ایک ایم۔ پی۔اے کے سفارشی کو رکھ لیا گیا ہے۔ وہ اُس ایم۔ پی۔ اے پر تو غصّہ نہ اُتار سکا، البتہ گھر آکر پہلے بیوی بچّوں کو کھانے میں زہر دیا اور پھر خُود زہر کھا کر خُودکُشی کر لی۔

٭بیلوں کی دوڑ والے ایک میلے پر دو قبائل کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔ غصّے سے بَھرے ایک نوجوان نے دوسرے شخص کو قتل کر دیا۔ یوں دو قبیلوں کے درمیان معمولی سی بات پر شروع ہونے والی یہ دشمنی، اب تک 10افراد کی زندگیاں نگل چُکی ہے۔

ہمارے معاشرے میں آئے روز رُونما ہونے والے یہ واقعات ایک ایسے ’’تھرما میٹر‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں، جو یہ بتاتا ہے کہ ہمارا معاشرہ عدم برداشت، غصّے، برہمی، اشتعال انگیزی، بات بات پر آپے سے باہر ہو جانے اور انتہا پسندی کے بخار میں تَپ رہا ہے۔ 

ایک پولیس افسر کے بقول، قتل کی 80فی صد وارداتوں میں وقتی غصّہ اور اشتعال کارفرما ہوتا ہے۔ ایسے معمولی جھگڑوں کا تو کوئی شمار ہی نہیں، جو روزانہ وقوع پزیر ہوتے ہیں، لیکن رپورٹ نہیں ہوتے۔ ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ ذہنی امراض کی ایک بڑی وجہ وہ پچھتاوا بھی ہے، جو اضطراری کیفیت میں کوئی غلط قدم اُٹھانے سے متاثرہ فرد کی نفسیات کا حصّہ بن جاتا ہے۔ 

ماہرینِ نفسیات کے نزدیک تاریخِ انسانی میں بہت سے جرنیل محض اِس لیے جنگ ہار گئے کہ اُنہوں نے غصّے اور اشتعال میں آکر بغیر سوچے سمجھے جنگی منصوبے بنائے۔ ہمارے ہاں اکثر غلط فیصلوں کے پسِ پردہ بھی غصّے اور عدم برداشت جیسے عناصر ہی کار فرما ہوتے ہیں۔ لیکن یہ صورتِ حال صرف پاکستان کی نہیں ہے، لگ بھگ پوری دنیا ہی عدم برداشت و انتہا پسندی جیسے رویّوں کا شکار ہے۔ 

یکم دسمبر 2022ء کو ایک عالمی سماجی ادارے کے تحت شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، پوری دنیا کو ایک اہم ترین تبدیلی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اوروہ ہے، سماجی، سیاسی اور مذہبی میدانوں میں عدم برداشت کا عُنصر، جو نہایت تیزی سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اختلافِ رائے ایک قدرتی امر ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان ایک دوسرے کے لیے عزّت و احترام کا جذبہ ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ 

وہ اب سیاست، مذہب، معیشت، نظریات اور عقائد پر ایک دوسرے سے اختلافِ رائے کو برداشت کرنے پر آمادہ ہی نہیں۔ وہ اپنا نقطۂ نظر دوسروں پر ٹھونسنا چاہتے ہیں۔ اگرچہ پاکستان کے حوالے سے اِس قسم کی کوئی باقاعدہ رپورٹ تو سامنے نہیں آئی، تاہم چند سال قبل گیلانی ریسرچ فاؤنڈیشن، گیلپ پاکستان کے ایک سروے کے مطابق، 46فی صد پاکستانیوں کے مطابق مُلک میں قوّتِ برداشت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ صرف28فی صد افراد نے کہا کہ قوّتِ برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔

سماجی ماہرین کے مطابق مذہبی، جنسی، نسلی اور طبقاتی امتیازات پوری دنیا میں قوّتِ برداشت میں کمی کے بنیادی اسباب ہیں۔ اِس ضمن میں گزشتہ تین چار دہائیوں کے دَوران ایک اور عُنصر بھی دیکھنے میں آیا، جو ’’XENOPHOBIA ‘‘ کے نام سے موسوم ہے، جس کا مطلب ہے، دوسرے ممالک سے آنے والوں کے خلاف حسد آمیز غصّہ۔ جن ممالک میں، مختلف ممالک سے لوگ آکر آباد ہوتے ہیں، وہ اس مُلک کے اصل باسیوں کے غصّے، نفرت اور حسد کا نشانہ بنتے ہیں۔ دوسرا بڑا سبب، لوگوں کا سیاسی، سماجی اور اقتصادی طور پر تقسیم ہو جانا ہے۔ 

ایک اور عُنصر سوشل میڈیا بھی ہے، جس کے نتیجے میں لوگ اب ایک دوسرے پر ماضی کے مقابلے میں بہت کم انحصار کرتے ہیں۔ سماجی اور معاشرتی رویّے دیکھ کر لگتا ہے کہ اخلاقی اقدار مسلسل زوال پزیر ہیں۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر زیرِ گردش بیش تر ویڈیوز لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑنے کی بجائے مذہبی، سیاسی اور سماجی منافرت کو ہوا دینے کا باعث بن رہی ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کا نقطۂ نظر سُننے اور سمجھنے کو تیار ہی نہیں، ہر شخص خود کو حرفِ آخر سمجھتا ہے۔

یہی سبب ہے کہ عوام کی اکثریت اِس دَور کو باہمی عزّت و احترام، مفاہمت اور قوّتِ برداشت کے ضمن میں ایک بدترین دور سمجھتی ہے، جب کہ کئی ایک کے نزدیک ایک دوسرے کا نقطۂ نظر سمجھنے کے حوالے سے یہ بہترین دَور ہے۔ ان میں امریکا کے سابق صدر، باراک اوباما بھی شامل ہیں، جنہوں نے جمی فالون کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ’’اگر آپ ماضی میں جھانکیں اور تاریخ دیکھیں، تو میرے نزدیک زندگی گزارنے کے لیے موجودہ دَور سے اچھا اور کوئی دَور نہیں۔‘‘

پاکستان کہاں کھڑا ہے…؟؟

پاکستان میں قوّتِ برداشت کی کیا صُورتِ حال ہے؟ اِس پر اگرچہ کوئی جامع مُلک گیر تازہ ترین سروے تو موجود نہیں، تاہم سماجی اور معاشی امور کے ماہرین عوام کی محرومیوں، نوجوانوں کی مایوسی کے نتیجے میں بڑھتے غصّے کو خطرے کی گھنٹی قرار دیتے ہیں۔ اُن کے مطابق، یہ مایوسی کسی انقلاب کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ اِس سلسلے میں معروف معیشت دان، ڈاکٹر حفیظ پاشا کی ایک رپورٹ قابلِ ذکر ہے، جو اُنہوں نے پالیسی ریفارمز انسٹی ٹیوٹ کے لیے تیار کی تھی۔ 

رپورٹ کے مطابق، پاکستان کی مِڈل کلاس آبادی کم ہو کر 35فی صد رہ گئی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ بے روزگاری میں سالانہ تقریباً 10فی صد اضافہ ہو رہا ہے اور ہر سال تقریباً 20سے 30لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جاتے ہیں۔ عوام کے احساسِ محرومی میں بھی مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 

رپورٹ کے مطابق، مزاحمتی تحریکوں کو پروان چڑھانے میں مِڈل کلاس کے نوجوان طبقے کا ہمیشہ اہم کردار رہا ہے، جس نے لوگوں کو فرسودہ نظام سے نکال کر نئے دَور میں داخل کیا۔ ماضی میں بھی نوجوانوں نے غریب طبقے میں شعورو آگہی پیدا کر کے اُنہیں امرا، اشرافیہ اور آمروں کے خلاف تحریک چلانے پر آمادہ کیا، جس سے دنیا میں بڑے بڑے انقلاب برپا ہوئے۔اِس رپورٹ میں اگرچہ پاکستانی عوام کی محرومیوں کا ذکر نہیں ہے، لیکن زمینی حقائق ایسے ہیں، جنہیں چُھپایا نہیں جاسکتا۔

یہی محرومیاں نفرت، غصّے، انتہاپسندی، اشتعال انگیزی، تشدّد اور جلاؤ گھیراؤ جیسے طرزِ عمل کو فروغ دیتی ہیں اور جب لوگوں کو انصاف نہیں ملتا، اظہارِ رائے پر بھی پابندیاں عائد ہوں، تو پھر عوام کا غصّہ مختلف رُوپ دھار کر امن کے خِرمن کو آگ لگا دیتا ہے۔ معروف کالم نگار، عطاء الحق قاسمی معاشرے میں بڑھتی انتہا پسندی کے ذیل میں اپنے ایک حالیہ کالم میں رقم طراز ہیں۔’’انتہا پسندی کا ایک اور پہلو بہت اہم ہے اور وہ یہ کہ ملزم کو پکڑنے اور اُس پر تیل چِھڑک کر آگ لگانے والے چند لوگ ہوتے ہیں اور اِس سارے شیطانی عمل کا تماشا دیکھنے والے وہ لوگ ہوتے ہیں، جو روزانہ اپنی حسرتوں پر آنسو بہا کر سو جاتے ہیں۔ 

غربت اور امارت میں ایک اور سو کا فرق اُنہیں اندر ہی اندر سلگا رہا ہوتا ہے، وہ ایک طبقے کو رنگ رلیاں مناتے اور اپنے گھروں میں بھوک ناچتے دیکھتے ہیں، وہ اِس طبقے میں شادیوں پر کروڑوں روپے اور بعض میں اربوں روپے کے اخراجات دیکھتے ہیں اور پھر اُن کی نظر اپنے گھروں پر پڑتی ہے، جہاں بیٹیاں اور بہنیں ہاتھ پیلے ہونے کا انتظار کرتے کرتے بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچ جاتی ہیں۔ 

جہاں اُن کے بچّے سرکاری اسکولز میں بھی داخلہ نہیں لے سکتے اور دوسرے طبقے کے بچّے اندرون اور بیرونِ مُلک کروڑوں کے اخراجات کر کے ڈگریز حاصل کرتے ہیں۔ چناں چہ محرومیوں میں بسا ہوا یہ طبقہ، اپنا غصّہ اُتارنے کے لیے کبھی گاڑیوں کو آگ لگاتا ہے اور کبھی انسانوں کو زندہ جلا دیتا ہے۔ اُنہیں ساری عُمر اپنے اصل دشمن کی پہچان نہیں ہوتی اور نہ ہونے دی جاتی ہے۔‘‘

خطرے کی گھنٹی

ماہرینِ سماجیات نے معاشرے میں بڑھتے غصّے اور عدم برداشت کے پسِ پردہ درجنوں عوامل کی نشان دہی کی ہے، جن میں تعلیم کی کمی، احساسِ محرومی، مذہبی روا داری کا فقدان، تنگ نظری، بے روزگاری، منہگائی، طبقاتی تفریق، سیاسی عدم استحکام وغیرہ شامل ہیں۔نیز، جب لوگوں کو اپنے جذبات کے اظہار کے لیے مثبت طریقے میسّر نہیں آتے، تو وہ توڑ پھوڑ کے ذریعے سرکاری املاک پر اپنا غصّہ نکالتے ہیں۔اِس ضمن میں ماہرِ سماجیات، پروفیسر ڈاکٹر محمّد افضل سندھو کا کہنا ہے کہ’’ آج ہم غصّے اور برہمی کے جس بارود کے ڈھیر پر بیٹھے ہیں، وہ ایک دن کی پیداوار نہیں، بلکہ برسوں کی محرومیوں کا نتیجہ ہے۔ 

اگر آج خدانخواستہ کہیں بلوا اور لُوٹ مار شروع ہو جائے، تو آپ دیکھیں گے کہ غریب اور محروم لوگ دُکانوں اور مکانوں سے وہ تمام چیزیں لُوٹ لیں گے، جو ہر روز اشرافیہ کے استعمال میں دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھتے رہتے ہیں۔ لوگوں کے دِلوں میں محرومیوں اور نفرتوں کا لاوا پکتا رہتا ہے، جو کسی بھی وقت، کسی بھی واقعے پر بہہ نکلتا ہے۔ جیسا کہ 2010ء کی’’ عرب بہار‘‘ میں تیونس میں ایک ریڑھی والے سے پولیس اہل کار کی زیادتی کے نتیجے میں شروع ہونے والا احتجاج لیبیا، مصر، یمن، شام اور بحرین تک پھیل گیا تھا۔

ماضی میں دنیا میں جتنے بھی عوامی انقلابات برپا ہوئے، وہ کسی بھی واقعے کے نتیجے میں گویا آتش گیر مادے کے لیے چنگاری ثابت ہوئے، جیسے انقلابِ فرانس میں ملکہ کا وہ جملہ آج بھی عوام سے نفرت کی علامت ہے کہ’’اگر بھوکے عوام کو روٹی نہیں ملتی تو وہ کیک کیوں نہیں کھاتے۔‘‘ ڈاکٹر محمّد افضل کا مزید کہنا تھا کہ’’ معاشرے سے اِن محرومیوں اور نفرتوں کے خاتمے کے لیے عوام کو زندگی کی تمام بنیادی سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی۔ امیر، غریب کے درمیان تفریق کا خاتمہ ضروری ہے۔ 

تنگ نظری کی جگہ فراخ دلی، تحمّل مزاجی، بھائی چارے اور مذہبی رواداری کے جذبات کو فروغ دینا ہوگا۔جب کہ حکومت عوام دشمن پالیسیز ختم کرے۔ لیکن اگر مُلک میں کیلے بیچنے والے ریڑھی بان کو بھی60،60ہزار روپے کے بجلی کے بِل بھرنے پڑیں، تو پھر عوام کے منفی جذبات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔موجودہ سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات نے ہمارے معاشرے کا تاروپود جس طرح بکھیر دیا ہے، وہ پوری قوم کے لیے خطرے کی ایک گھنٹی ہے، لیکن افسوس یہ ہے کہ اِسے سُننے کے لیے کوئی تیار نہیں، نہ حُکم ران، نہ عوام اور نہ ہی ہماری ایلیٹ کلاس۔‘‘

ماہرینِ نفسیات کیا کہتے ہیں؟

ڈاکٹر نبیل عباد، شیخ زید میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل، لاہور کے شعبہ نفسیات کے سربراہ ہیں۔ اِس ضمن میں اُن کا کہنا ہے کہ’’غصّے اور اشتعال انگیزی کا بڑھتا رجحان ایک سنگین معاشرتی مسئلہ ہے، جسے حل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اِس سلسلے میں ہمیں انفرادی، خاندانی، معاشرتی اور حکومتی سطح پر کام کرنا ہوگا۔ میرے نزدیک، ہمارے اندر غصّے اور اشتعال کے جذبات کی سب سے بڑی وجہ قدم قدم پر ہونے والی ناانصافیاں ہیں۔ ناانصافی کی یہ کیفیت گھروں میں ساس، بہو، بیوی اور بچّوں سے شروع ہوکر پورے معاشرے اور پھر حکومتی سطح تک پہنچتی ہے۔

عام آدمی سمجھتا ہے کہ امیر افراد دولت کی بنیاد پر عدالت یا پولیس سے فیصلے اپنے حق میں کروا لیتے ہیں، جب کہ غریب کا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ دیگر وجوہ میں غریبوں اور مِڈل کلاس کی حالتِ زار بھی اہم ہے۔ اکثر لوگ جب اپنا معیارِ زندگی بہتر نہیں رکھ پاتے، تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہم میں سے اکثر اپنا معیارِ زندگی بڑھانا چاہتے ہیں، لیکن جب جائز ذرائع سے نہیں بڑھا پاتے، تو غیر اخلاقی یا غیر قانونی طریقے اختیار کرنے لگتے ہیں۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں خوشی کا پیمانہ بدل گیا ہے اور اب قناعت پسندی کی جگہ اچھا مکان، گاڑی اور بینک بیلنس ہی کام یابی یا خوش گوار زندگی کا پیمانہ بن گیا ہے۔ جب کہ خوشی تو چھوٹی چھوٹی چیزوں سے بھی حاصل ہو سکتی ہے۔ زیادہ پیسا آپ کو حقیقی خوشی نہیں دے سکتا۔ ضروری نہیں کہ خوشی کسی منہگے ترین ریسٹورنٹ میں کھانے ہی سے ملے، یہ گھر میں اہلِ خانہ کے ساتھ چائے کے ایک کپ پر بھی مل سکتی ہے۔خوشی کے حقیقی پیمانے، جو ایک دوسرے سے یگانگت اور محبّت پر استوار تھے، اب ہماری زندگی سے رخصت ہوتے جا رہے ہیں۔ اربوں روپے کی مالیت کے گھروں میں شُوٹ ہونے والے ڈرامے اور فلمز بھی ہماری زندگیوں میں مایوسی اور احساسِ کم تری کا سبب بن رہی ہیں۔

نیز، سوشل میڈیا بھی خاصا منفی کردار ادا کررہا ہے۔ سیل فون کے ضرورت سے زیادہ استعمال نے گھروں، دوستوں اور عزیز و اقارب کے درمیان فاصلے پیدا کر دیئے ہیں۔ ہر شخص اپنی ذات کے خول میں بند ہے۔ خوشیوں، غموں، باہمی گپ شپ اور تقریبات میں شرکت اب صرف موبائل فونز تک محدود ہوگئی ہے۔ مجموعی طور پر ہمارا مسائل میں ڈوبا معاشرہ درد کی ایک ایسی کیفیت سے دوچار ہے، جس کا مداوا انسانی ہم دردی کے بول ہیں، لیکن ہماری مصروفیات پر اب موبائل فونز کا قبضہ ہے اور’’ہیومن ٹچ‘‘ کا عُنصر کہیں نظر نہیں آتا۔ 

اگر زخم خوردہ معاشرے پر ہم دردی، محبّت اور بھائی چارے کا مرہم نہ لگایا گیا، تو یہ مزید ہیجانی کیفیت سے دوچار ہو جائے گا۔‘‘ اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ’’ مسلسل غصّے کی کیفیت میں رہنے سے انسان بلڈ پریشر، معدے کے السر، ڈیپریشن، سر درد اور فالج کا بھی شکار ہوسکتا ہے۔ اِس لیے معاشرے کو بے جا غصّے سے بچانے کے لیے فوری اجتماعی کوششوں کی اشد ضرورت ہے‘‘۔

’’دینی تعلیمات، تحمّل و برداشت کا درس دیتی ہیں‘‘، مولانا مجیب الرحمٰن انقلابی

ممتاز عالمِ دین، مولانا مجیب الرحمٰن انقلابی نے معاشرے میں عدم تحمّل کے بڑھتے رجحان سے متعلق ایک سوال پر کہا کہ’’غصّہ وقتی طور پر ذہن کو ماؤف کر دیتا ہے، جس سے اشتعال میں آکر انسان غلط فیصلے کر بیٹھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں غصّے پر قابو رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔

سورۂ آلِ عمران میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ’’اہلِ تقویٰ تو وہ ہیں، جو غصّے کو قابو میں رکھتے ہیں اور لوگوں کے ساتھ عفوو درگزر سے کام لیتے ہیں۔‘‘ اِسی طرح حضرت ابوہریرہؓ سےایک حدیثِ مبارکہؐ مروی ہے کہ ’’حضورصلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا’’ پہلوان وہ نہیں، جو لوگوں کو پچھاڑ ڈالے بلکہ طاقت وَر انسان وہ ہے، جو غصّے کی حالت میں خُود کو قابو میں رکھے۔ ‘‘آپﷺ نے ایک اور موقعے پر ارشاد فرمایا کہ’’جو شخص غصّے پر قابو پا لے، اللہ تعالیٰ اُسے عذاب سے محفوظ رکھیں گے۔‘‘

ہمارا روز کا مشاہدہ ہے کہ لوگوں میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے کی قوّت ختم ہوتی جا رہی ہے، بالخصوص مذہبی معاملات میں ہم رواداری کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ محض سُنی سُنائی باتوں پر مشتعل ہو کر ایک دوسرے کو قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے، حالاں کہ دینی تعلیمات تحمّل و برداشت کا درس دیتی ہیں۔ ایک دوسرے کی بات تحمّل مزاجی سے سُنے، سمجھے بغیر ہمارا معاشرہ کبھی امن کا گہوارہ نہیں بن سکتا۔‘‘

پاکستان کا’’ ناراض افراد‘‘ کی فہرست میں دسواں نمبر

2019ء کی گیلپ گلوبل ایموشنز رپورٹ کے مطابق، پاکستان دنیا کے150 ممالک میں غصّے اور برہمی کے حوالے سے پہلے دس ممالک میں شامل ہے۔ اِس سلسلے میں ڈیڑھ سو سے زائد ممالک میں ڈیڑھ لاکھ افراد کا سروے کیا گیا۔

اِس فہرست میں افریقی مُلک چاڈ پہلے نمبر پر، عراق 48فی صد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ، ایران 43فی صد کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا،جب کہ تُرکی اور لیبیا بھی اِس فہرست میں شامل ہیں۔ اِس عالمی سروے سے معلوم ہوا کہ دنیا میں ہر تیسرا شخص ذہنی تناؤ کا شکار ہے اور ہر پانچویں شخص نے بتایا کہ وہ اداس، مایوس اور ناراض ہے۔ 

سب سے زیادہ ناراض لوگ چاڈ اور نائیجریا میں بستے ہیں، تو سب سے زیادہ خوش اور مطمئن لوگ لاطینی امریکا کے مُلک، پیراگوئے کے باسی ہیں۔ یہ تو عالمی سروے ہے، مقامی طور پر22 جنوری 2019ء میں گیلپ اینڈ گیلانی پاکستان نے جو سروے کیا تھا، اُس میں تقریباً50 فی صد پاکستانیوں کا کہنا تھا کہ اُنہیں جلد غصّہ آ جاتا ہے اور وہ فوراً مشتعل ہو جاتے ہیں۔