• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یونانی زمانہ عروج کا ایک مشہور قصہ حکیم ارشمیدس کا ہے۔ ریاضی دان، سائنس دان اور دانشور ارشمیدس آف سارا کیوز (287.212 ق م) ایک دن ٹب میں بیٹھا نہا رہا تھا کہ یکایک اسے کثافت ناپنے کا فارمولا سمجھ آگیا۔ ارشمیدس اس قدر خوش ہوا کہ گلیوں میں ننگا ہی بھاگنے لگا اپنی دریافت پر وہ زور زور سے EUREKAیوریکا (پا لیا، پالیا) کے نعرے لگا رہا تھا ۔آج قلم مزدور کا حال بھی ارشمیدس والا ہے لیکن جب مجھے تضادستان کے بحران کا شافی حل ملا تو میں نہانے کے ٹب میں نہیں تھا کہ ننگا گلیوں میں ناچتا اور ’’پالیا، پالیا‘‘ کے نعرے لگاتا،میں ایئر پورٹ پر تھا جب ایک مردِ دانا نے مجھے یہ خیال سمجھایا یہ وہ واحد حل ہے جس میں سب کی جیت ہے اور ہار کسی کی بھی نہیں ۔ملک کی راہ بھی متعین ہو جائے گی اور ہم انارکی، بغاوت ،مایوسی اور لڑائی کے ماحول سے بھی نکل آئیں گے کہاںارشمیدس اور کہاں یہ قلم مزدور؟ مگر وفور جذبات کا عالم ایک جیسا تھا، قلم مزدور نے اڑن کھٹولے میں بیٹھ کر اَسپِ خیال دوڑانے کو ہی رقص سمجھا اور دل ہی دل میں یوریکا یوریکا کے نعرے لگائے وگرنہ کوئی مجھے پاگل کہہ کر پتھر ہی مار دیتا۔

ہم کئی بحرانوں کا شکار ہیں ان ہمہ جہت بحرانو ں سے نکلنا ملک کیلئے ناگزیر ہے۔8فروری کا الیکشن ضروری تھا مگر 8فروری کے الیکشن کے بعد ملک کا کوئی بھی فریق یا ادارہ خوش نہیں۔سب سے زیادہ ناراض پاپولر تحریک انصاف ہے جو مسلسل رو ر ہی ہے کہ فارم 47کے ذریعے ان کا مینڈیٹ چھین لیا گیا ہے، ان کے ساتھ ظلم اور زیادتیاں ہوئی ہیں ،فیصلہ ساز بھی مطمئن نہیں 8فروری کے بعد انہیں ایک دن بھی چین اور سکون کا نہیں ملا اور انتخابی نتائج کے بعد سے حکومت ڈیلیور کرنے میں بھی ناکام ہے۔نونی بھی خوش نہیں بقول ان کے ،ان کےپاس SPACE ہی نہیں وہ کریں تو کیا کریں؟ اتحادی حکومت کی پارٹنر پیپلز پارٹی کو بھی پنجاب حکومت اور وفاق سے لمبی چوڑی شکایات ہیں گویا خوش کوئی بھی نہیں ؎

لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں

اب صورتحال یہ ہے کہ فریق مورچہ بند ہیں ،حکومتی پہیہ چل نہیں رہا معاشی اور سیاسی بحران زوروں پر ہیں کوئی فریق لچک نہیں دکھا رہا کیونکہ اسے اپنی لچک میں ہار اور مکمل شکست نظر آتی ہے، اس لئے ہر کوئی اپنی پوزیشن اور موقف پر ڈٹا ہوا ہے۔ ان حالات میں جب ملک نیچے جا رہا ہو ،بحران کا کوئی حل نظر نہ آ رہا ہو تو نیشنل یونٹی گورنمنٹ یعنی اتحادی قومی حکومت وہ واحد روشن راستہ ہے جس سے بحرانوں سے نکلا جاسکتا ہے، اتحادی قومی حکومت عام طور پر جنگی صورتحال یا بحرانی صورتحال سے نمٹنے کیلئے پارلیمان کے اندر موجود تمام بڑی پارٹیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ مردِ دانا نے تجویز دی کہ ایسی حکومت دوسال کیلئے بنائی جائے جس کے بعد منصفانہ انتخابات ہوں اور جو پارٹی بھی اس میں جیتے وہ اگلی حکومت چلائے۔اس تجویز کا مطلب گویا یہ ہے کہ نون لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ساتھ ساتھ تحریک انصاف بھی حکومت میں شامل ہو، مقتدرہ بھی آن بورڈ ہو غیرمتنازع اور متفقہ وزیر اعظم بنایا جائے پروفیشنل وزیر ہوں پارٹیوں کی جن کو مکمل سپورٹ ہو، ان کے پاس دو سال کا وقت ہو یہ ساری پارٹیاں مل کر ملک کو سیاسی اور معاشی پٹڑی پر چڑھائیں۔ بعدازں اپنی اپنی سیاست کرلیں اتحادی قومی حکومت بننے سے مقتدرہ اور عوام کے درمیان موجود تضادات فوراً ختم ہو جائیں گے۔ تحریک انصاف کی ناراضی اور گلے شکوےختم ہو جائیں گے ،نونی کمزور اخلاقی حیثیت سے سب کیلئے قابل قبول کا درجہ حاصل کرلیں گے۔ پیپلز پارٹی کی سندھ میں حکومت رہے گی اور آئینی عہدے بدستور اس کے پاس رہیں گے۔قلم مزدور نے مردِ دانا ، جو چوٹی کا وکیل بھی ہے ،سے پلٹ کر سوال کیا کپتان خان کسی کمپرومائز پر نہیں مانتے وہ اتحادی قومی حکومت میں شرکت سے انکار کر دیں گے، مردِ دانا جو اکثر خان صاحب سے ملتا رہتا ہے ،نے کہا کہ نہیں وہ مان جائیں گے سب کو علم ہے کہ پاکستان کو بچانے کا واحد پرامن راستہ سسٹم کو چلانا ہے۔ باقی آپشنز خونیں ،غیر جمہوری ،غیر قانونی اور غیر آئینی ہیں اس لئے ان مسائل کا واحدحل آل پارٹیز حکومت میں ہے اس اقدام سے ہم دنیا بھر میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بھی بحال کرلیں گے۔اتحادی قومی حکومت بننے سے ملک کے اندر موجود سیاسی کشیدگی فوراً ختم ہو جائے گی اور سیاسی ٹیکنوکریٹس پر مشتمل اتحادی قومی حکومت مل کر ملک کو دلدل سے نکالے گی سیاسی جماعتیں اپنے بہترین لوگ نئی کابینہ میں بھیجیں ،ان کا کارکردگی میں آپس میں مقابلہ ہو اس طرح جو وزیر اچھی کارکردگی دکھائے گا اس سے اسکی سیاسی پارٹی کی ساکھ میں اضافہ ہو گا؟

اتحادی قومی حکومت پر اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے ایک وزارتی ڈربے میں اکٹھے بیٹھ کر فیصلے نہیں کر پائیں گے، مردِ دانا کا خیال ہے کہ مقتدرہ کی موجودگی میں سارے بگڑے بچے، اچھے بچے بن کر رہیں گے ساری پارٹیاں اتحادی قومی حکومت کا حصہ بن جائیں تو مقتدرہ اور عدلیہ میں جو آج کل ٹھنی ہوئی ہے اسکی وجوہات ہی ختم ہو جائیں گی تو یہ معاملہ بھی خود بخود ٹھیک ہو جائے گا اوورسیز پاکستانیوں کا غصہ اتر جائے گا اور یوٹیوبرز کیلئےبھی ہر روز کی گالیاںدینا مشکل ہوتا جائےگا ۔’’بہتے پانی دا اکو حل/نواب ٹیوب ویل، نواب ٹیوب ویل‘‘ گویا اتحادی قومی حکومت وہ واحد حل ہے جس میں کسی کو شکست نہیں سب حکومت میں اسٹیک ہولڈرہونگے اس لئے نظام چل پڑے گا۔

اتحادی قومی حکومت دراصل سیاسی مفاہمت اور مصالحت کا نقطہ عروج ہوتاہے بدقسمتی سے نقطہ آغاز پر تو اتفاق ہو نہیں پایا لیکن نقطہ عروج پر اتفاق ممکن ہے، دو دھاری تلوار کا کوئی بھی سرا پکڑ لیں کاٹ ایک جیسی ہی ہوتی ہے مصالحت، مذاکرات اور مفاہمت نہ سہی اگر حکومت میں ہی اکٹھے بیٹھ جائیں تو یہ سب سے بہتر ہے آخری اور اہم سوال یہ ہے کہ ’’بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا‘‘؟

تازہ ترین