• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر آپ پچھلی دو دہائیوں سے’’نیو ورلڈ آرڈر‘‘ کے تباہ ہونے اور ختم ہونے کی امیدکر رہے ہیں، تو آپ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہو گا کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی مسلسل ناکامیوں کا شکار ہے،جس کا خمیازہ پوری دنیا کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ذرا غور کریں کہ سرد جنگ کے خاتمے کے وقت امریکہ کہاں تھا، اور غور کریں کہ وہ آج کہاں ہے۔ 1993ءمیں، سوویت یونین چلا گیا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو کسی سنگین جغرافیائی سیاسی حریف کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کچھ دہائیوں پیچھے اگر ہم جائیں تو صدام حسین نے بھی عراق پر حکومت کی، لیکن اس کی فوجی طاقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی۔اوسلو معاہدوں نے مشرق وسطیٰ میں امن کو بہت قریب محسوس کیا۔ القاعدہ ابھی ایک بڑی طاقت نہیں تھی۔ اور ایران کے پاس بالکل صفر نیوکلیئر سینٹری فیوجز تھے۔ جمہوری توسیع کی ایک ’’تیسری لہر‘‘جاری تھی اور تھامس فریڈمین سے لے کر فرانسس فوکویاما تک جیسے نفیس مبصرین کا خیال تھا کہ دنیا کے پاس مارکیٹ پر مبنی جمہوریت، انفرادی آزادی، قانون کی حکمرانی اور دیگر مانوس لبرل اقدار کو اپنانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ کس طرح امریکہ نے دنیا پر ورلڈ آرڈر تھوپنے کے لیے اپنی خارجہ پالیسی کے ہتھیاروں کو استعمال کرتے ہوئے دنیا کا نقشہ ہی بدل دیا۔ ہم نے تب سے دو طرفہ خارجہ پالیسی کی ناکامیوں کی ایک پریڈ دیکھی ہے، جس میں القاعدہ کا ظہور اور 9الیون کے حملے، عراق میں تباہ کن جنگ، یوکرین جنگ، شام میں تباہ کن حالات۔ اسرائیل فلسطین امن عمل۔ روس اور امریکہ اب یوکرین پر اختلافات کا شکار ہیں اور ماسکو تیزی سے چین کے قریب آتا جا رہا ہے۔ عرب دنیا میں لیبیا، شام اور یمن خانہ جنگیوں کی لپیٹ میں ہیں جس کے لیے کم از کم جزوی طور پر امریکہ ذمہ دار ہے۔ ایک نئی شدت پسند تحریک اسلامک اسٹیٹ نے عراق پر ناکام امریکی قبضے سے پیدا ہونے والے طاقت کے خلا کو پر کیا اور جسے ختم کرنے کیلئے خطے کو مزید تباہی کا شکار کردیا گیا۔ افغانستان میں 20سال کی جنگ کے بعد امریکہ کو پسپائی کا سامنا کرنا پڑا ۔ امریکہ کا جہاں مفاد ہو وہاں اس کی خارجہ پالیسی کامیاب بھی ہوتی نظر آرہی ہے۔ مثال کے طور پر اسرائیل اور اردن کے درمیان امن معاہدہ اور بوسنیا کی جنگ کو ختم کرنا امریکہ کا مفاد تھا تو اس نے یہ کام کر دکھایا مگر کشمیر کا مسئلہ ہو یا فلسطین کا ،انکا حل امریکہ کے مفاد میں نہیں لہٰذا اس کی خارجہ پالیسی میں یہ دونوں اور اس طرح کےدیگر کئی مسائل کا حل اس کی خارجہ پالیسی کے اہم اہداف نہیں۔ اس کے علاوہ بھی امریکی خارجہ پالیسی میں چند اہم کامیابیاں شامل ہیں جن میں جوہری ہتھیاروں کو سابق سوویت یونین سے نکلنے سے روکنے میں مدد، اور صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ کے پرولیفریشن سیکورٹی انیشی ایٹو نے حساس ڈبلیو ایم ڈی ٹیکنالوجیز کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک موثر اتحاد بنایا۔ واشنگٹن نے 1994ءکے میکسیکن پیسو بحران کو مہارت سے سنبھالا اور NAFTA اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ PEPFAR پروگرام نے افریقہ میں ایڈز کی افزائش کو کم کرنے میں مدد کی۔امریکہ نے انڈونیشیا، ہیٹی، اور پاکستان میں مؤثر انسانی امدادی کوششیں بھی کیں۔مختصراً، امریکہ کا حالیہ ٹریک ریکارڈ ناکامیوں اور کامیابیوں دونوں پر مشتمل ہے اور ان دونوں کا موازنہ کریں، تو اس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ امریکہ اپنے مفاد کو حاصل کرنے کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ پاکستان میں سوشل انجینئرنگ میں بھی امریکہ بڑی حد تک کامیاب ہوگیا، جس کا خمیازہ پاکستان آج بھگت رہا ہے کیوں کہ دہائیوں سے امریکہ نے جس طرح پاکستان کی غیر سرکاری تنظیموں کے ساتھ مل کر نوجوانوں کے اوپر کام کیا اور انھیں جمہوریت، آزادی اور لبرل ازم کا سبق پڑھایا۔ آج پاکستان میں جو انتشار ہے وہ کسی حد تک امریکی پالیسیوں کا ثمر ہے۔ امریکی خارجہ پالیسی کو امریکی میڈیا کم ہی زیر بحث لاتا ہے۔ وہ امریکی مفادات کو اپنا مفاد سمجھتا ہے۔لیکن پاکستان میں صورتحال اس کے بر عکس ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے ادارے خواب غفلت کی نیند سو رہے ہیں۔ دیکھنایہ ہوگا کہ آنے والے دنوں میں پاکستان امریکی خارجہ پالیسی میں کہاں جگہ بنا پاتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین