کوئٹہ(پ ر)معروف قانون دان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر علی احمد کردایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کےاکثریتی فیصلے کے حوالے سے جسٹس امین الدین اور نعیم افغان کے اختلافی نوٹ کے جاری ہونے کے ساتھ ہی یقینا ، پاکستان ایک عجوبہ ملک کی حیثیت اختیار کر گیا ہے کیونکہ ہر وہ کام جو پاکستانی حدود سے باہر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا وہ ہم بغیر کسی جھجک کے بڑے دھڑلے سے کرنے کی ہمت رکھتے ہیں جیسا کہ اس اختلافی فیصلے میں بڑے دھڑلے سے یہ کہا گیا ہے اور یقینا یہ کسی کے لیے ایک ترغیب ایک شہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ" پی ٹی ائی کو مخصوص نشستیں دی جاتی ہیں تو یہ عدالت کی اپنی جانب سے خود تخلیق کردہ ریلیف ہوگا ریاست کا کوئی ائینی ادارہ کسی ایسے عدالتی حکم پر عمل کا پابند نہیں جو ائین کے مطابق نہ ہو‘‘۔ اپنے اختلافی فیصلے میں بڑے تحکمانہ انداز میں ، یہ فقرہ لکھ کر ان جج صاحبان نے اکثرتی رائے سے فیصلہ کرنے کی بہت پرانے عدالتی طریقہ کار کو ہی روند کے رکھ دیا ہے سپریم کورٹ نے اگر یہی ہی کرنا تھا تو کیا اچھا ہوتا اور یقینا یہ ہمارے عدالتی نظام پہ کتنا بڑا احسان ہوتا کہ بھٹو صاحب کے بدنام زمانہ عدالتی قتل کا فیصلہ جو بہت ہی معمولی فرق چار اور تین کے اکثرتی رائے سے نہ صرف سنایا گیا بلکہ بھٹو صاحب کو بڑی بے شرمی کے ساتھ پھانسی پہ لٹکایا گیا ، ان ججز کا اپنے اختلافی نوٹ میں اس طرح کا انداز اپنانا صرف اکثرتی ججز کے رائے سے اختلاف نہیں بلکہ سپریم کورٹ جیسے انتہائی بڑے آئینی ادارے میں کھلم کھلا جنگ کا آغاز ہے ۔ اس سے نہ تو سپریم کورٹ کو اور نہ ہی ہمارے معزز جج صاحبان کو کوئی فائدہ ہوگا بلکہ نقصان انہی کا ہوگا جنہوں نے اپنے اس اختلافی نوٹ کے ساتھ محاذ آرائی کا آغاز کیا ہے۔