• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر…شیخ الحدیث مولانا محمد حنیف جالندھری سیکریٹری جنرل وفاق المدارس العربیہ پاکستان
گزشتہ سے پیوستہ
اور زبانی طور پر کہا گیاتھا کہ مدارس وزارت تعلیم سے منسلک ہونگے ، تابع نہیں ہو نگے، مذکورہ منصوبہ عملی طور پراس کی نفی کرتا ہے ۔
پھر یہ بھی کہ ڈی جی آرای کا آفس اسلام آباد میں ہونے کی وجہ سے مدارس رجسٹریشن کے لیے آنے والے حضرات کی سفری مشکلات کا سبب بھی ہوتا۔ بہر حال یہ تمام باتیں معاہدے کے خلاف کی گئیں اور ان کا سوائے اس کے اور کوئی مقصد معلوم نہیں ہوتا کہ دینی مدارس کو پریشان اور کنٹرول کیا جائے۔
ملک میں جتنے بھی عصری تعلیمی ادارے ہیں وہ اپنے اپنے ضلع میں متعلقہ محکمے میں رجسٹر ڈ ہوتے ہیں، مدارس کے ساتھ ہی یہ امتیازی سلوک کیوں کہ وہ ضرور ایک الگ تھلگ ادارے سے (جس کی کوئی قانونی حیثیت بھی نہیں) منسلک ہوں؟۔
(3)ہم بار بار یہ واضح کر چکے ہیں کہ دینی مدارس اپنی آزادی اور خود مختاری کو کسی رکاوٹ کے بغیر قائم رکھنے کے لیے پر عزم ہیں، اور کسی حکومتی ادارے کے تابع یا ما تحت ہونے کو گوارا نہیں کر سکتے اور اگر اس آزادی و خود مختار کو باقی رکنے کے لیے انہیں کوئی بھی قربانی دینی پڑے تو وہ اس کے لیے بھی تیار ہیں، لہذا وزارت تعلیم میں رجسٹریشن کے لیے اتنے بڑے منصوبے اور اتنے اخراجات کی نہ صرف یہ کہ ضرورت نہیں بلکہ مقصد کے لیے بھی مضر ہے۔
(4) جوڈائیریکٹوریٹ برائے مذہبی تعلیم قائم کیا گیا ہے اُسے سرکاری تعلیمی اداروں میں دینی تعلیم بقدر ضرورت دینے کے لیے استعمال کیا جائے اور اس کے ذریعے تمام تعلیمی اداروں میں اتنی دینی تعلیم دینے کا اہتمام کیا جائے جو ہر مسلمان کے لیے فرض ِعین ہے۔
(5)2019میں وزارت تعلیم کے ساتھ جو معاہدہ ہوا تھا اس پر خود وزارت تعلیم نے عمل نہیں کیا۔ مثلاً معاہدہ میں یہ طے تھا کہ جب تک مدارس کی رجسٹریشن وزارت تعلیم کے ساتھ مکمل نہیں ہو جاتی ان کی پرانی رجسٹریشن کو تسلیم کیاجائے گا۔ لیکن اس معاہدے کے بعد اس بات کو ایک دن کے لیے بھی تسلیم نہیں کیا گیا۔
معاہدے کی دوسری شق یہ تھی کہ جن مدارس کے اکاؤنٹس بند کیے گئے ہیں وزارت تعلیم نہ صرف وہ اکاؤنٹ کھلوائے گی بلکہ نئے اکاؤنٹس کھلوانے میں بھی مدد کرے گی ، وزارت تعلیم کی جانب سے اس طرح کا کوئی تعاون نہیں ہوا۔
معاہدے ایک شق یہ تھی کہ مدارس کے کوائف اکٹھے کرنے کے لیے واحد مجاز ادارہ محکمہ تعلیم ہوگا ، اس پر خود وزارت تعلیم نے ، حکومت نے ، معاہدے پر دستخط کرنے والوں حکومتی عہدیداروں اور متعلقہ اداروں نے عمل نہیں کیا۔ جبکہ آج کے دن تک حسب سابق ایجنسیوں کے افراد کا مدارس میں آنے جانے ، مدارس کو خوفزدہ کرنے ، اور ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
(6)جہاں تک یکساں نصاب تعلیم کی بات ہے تو اس کا ہم نے بالکل انکار نہیں، ہم تو چاہتے ہیں کہ ملک میں طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ہو، یکساں نصاب تعلیم کی تدوین میں تو ہم نے اپنا حصہ ڈالا ہے اور اس میں ہم نے عملی طور پر کام کیا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا یکساں نصاب تعلیم کو بیکن ہاؤس، لاہور گرامر اسکول، آکسفورڈ اور کیمبرج کے نام سے چلنے والے برینڈ ڈعصری تعلیمی اداروں نے بھی تسلیم کیا ہے؟ ، یقیناً جواب نفی میں ہے۔ مدارس تو اب بھی کہتے ہیں کہ عصری مضامین کا جو بھی قومی نصاب تعلیم ہوگا اسے اپنے ہاں ضرورت کے مطابق نافذ کریں گے۔ یہاں یہ بات بھی عرض کرتا چلوں کہ دینی مدارس اپنے ہاں عصری نصاب پڑھا بھی رہے ہیں ۔ چناں چہ ابھی پچھلے دنوں میٹرک بورڈ ز کے جو امتحانی نتائج آئے ہیں اس میں ہمارے مدارس کے طلبہ نے اول دوم اور سوم پوزیشنیں لی ہیں ، آپ ملتان بورڈ، بہاولپور بورڈ، ساہیوال بورڈ ، راولپنڈی بورڈ ، آزاد کشمیر بورڈ ، اسی طرح فیڈرل بورڈ کے امتحانی نتائج کا جائزہ لے لیجئے ، آپ کو مدارس کے طلبہ ٹاپ پہ نظر آئیں گے۔ اس سے یہ حقیقت آشکارا ہوتی ہے کہ مدارس اپنے ہاں نہ صرف عصری تعلیم دے رہے ہیں بلکہ ان کا تعلیمی معیار بھی اتنا اعلیٰ ہے کہ طلبہ تعلیمی بورڈز میں ٹاپ پوزیشنیں لےرہے ہیں۔
ہم عصری تعلیم کے مخالف تھے نہ ہیں لیکن آپ بتائیے کہ یکساں نصاب تعلیم کے نفاذ میں رکاوٹ کون ہے؟ ۔ ان اداروں کے نام لیجیے ، صورت حال تو یہ ہے کہ تمام صوبائی حکومتوں نے یکساں نصاب تعلیم کے وژن کو قبول نہیں کیا۔ آپ کی ایلیٹ کلاس کے جو تعلیمی ادارے ہیں ؟ اے لیول یا اولیول کراتے ہیں؛ وہ اسے قبول نہیں کر رہے۔ اب بتائیےکہ دینی مدارس کا اس میں کیا قصور ہے؟!۔
(7) دینی مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے مزید عرض کرتا چلوں کہ موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف صاحب جب پی ڈی ایم کے دور حکومت میں وزیر اعظم تھے ، تو ان سے ہمارے کئی گھنٹے تک مذاکرات ہوئے ، ان مذاکرات میں اس وقت کے وزیر تعلیم ، وزیر داخلہ اور دیگر متعلقہ وزارتوں اور محکموں کے نمائندے موجود تھے، وزیر اعظم صاحب نے پوری بحث کے بعد ایک مسودے کی منظوری دی، اور حکم جاری کیا تھا کہ اس کے مطابق مدارس کو رجسٹریشن کا اختیار دے دیا جائے ، اس میں دونوں آپشن موجود تھے ، مدارس چاہیں تو اپنے آپ کو 1860ء کے سیکشن 21 کے تحت رجسٹرڈ کرالیں ، چاہیں تو وزارت تعلیم میں خود کو رجسٹرڈ کرالیں ، اس سے پہلے بھی مدارس کو اختیار رہا کہ چاہیں تو سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ ہوں چاہیں تو ٹرسٹ کے قانون کے تحت رجسٹرڈ ہوں ۔ اب سوال یہ ہے کہ جب وزیر اعظم نے ہدایات جاری کر دیں، اور معاہدے کے مسودے پر دستخط کر دیے یعنی منظوری دے دی تو پھر اس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا؟ ۔ وزیر اعظم ملک کا چیف ایگزیکٹو ہوتا ہے، کیا اس کے فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں ؟!، اس پر بھی ذرا روشنی ڈالیے۔
پھر جب پی ڈی ایم کی حکومت کا آخری دور تھا ، حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مدظلہم العالی اور یہ عاجز بندہ ایک ہفتہ مسلسل اسلام آباد میں رہے، اس دوران ہماری ملاقاتیں ڈی جی سی محترم جناب آرمی چیف صاحب سے ہو ئیں ، وزیر اعظم شہباز شریف صاحب سے حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب مسلسل رابطے میں رہے ، ان مذاکرات اور رابطوں کے نتیجے میں ایک مسودے پر اتفاق بھی ہو گیا ، جس میں وزارت تعلیم کے اور اسی شعبے کو جو مدارس کے لیے قائم کیا گیا تھا؛ ان کی تجاویز کو بھی لیا گیا، اور انہیں اس مسودے میں شامل کیا گیا ، اسے خواندگی کے لیے قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا تاکہ یہ با قاعدہ قانون بن جائے ، پھر کیا وجہ ہوئی کہ اچانک اس پر عمل درآمد روک دیا گیا؟ ۔ اصل بات جو ہے وہ یہ کہ اس میں رکاوٹ کون بنا؟ یقینا اس میں کچھ عالمی اداروں کی مداخلت بھی ہے جسے چھپایا جا رہا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ہم متعلقہ فریق ہیں، ہمارے تحفظات کو سامنے رکھ کر بات کی جائے ۔ اور اگر کسی عالمی ادارے کی طرف سے مسئلہ ہے تو ہم اس کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے کے لیے بھی تیار ہیں ۔ بہر حال قرائن اور علامات بتاتی ہیں کہ درون خانہ کوئی بات ضرور ہے، اور یہ رکاوٹیں عالمی دباؤ پر ہیں ، ہمارے متعلقہ محکمانہ افراد گوروں اور انگریزوں کے دباؤ میں ہیں۔ اسی لیے جب بھی طویل مذاکرات کے بعد کسی مسودے پر اتفاق رائے ہوتا ہے تو حکومت اچانک پیچھے ہٹ جاتی ہے ۔
آخر میں میں یہ کہنا چاہوں گا کہ مدارس کی دینی خدمات پر انہیں سراہنے اور اور ان کی خدمات کے اعتراف میں تنگ دلی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ ابھی میٹرک کے امتحانات میں مدارس کے طلبہ نے ٹاپ پوزیشنیں لی ہیں مگر کیا کسی بھی اعلیٰ حکومتی شخصیت یا سرکاری ادارے کی جانب سے اس بات کو سراہا گیا ہے؟ اس کی بجائے الٹا مدارس کو کبھی رجسٹریشن کے نام پر کبھی کوائف طلبی کے نام پر کبھی کسی اور بہانے سے تنگ اور پریشان کرنے کا عمل تسلسل سےجاری رہتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ دینی مدارس کی آزادی و خود مختاری ، خود ادری ، اور حریت فکر و عمل سب سے اہم ہے، ہم اسے دینی علوم کے تحفظ ، امت مسلمہ کی صحیح دینی رہنمائی ، اور علوم اسلامیہ کی اشاعت کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ ان شاء اللہ اس سلسلہ میں ہم اپنا فرض ادا کرتے رہیں گے ۔
الحمدللہ تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس و جامعات کی اکثریت اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان میں شامل وفاق و تنظیموں سے وابسطہ ہے اور اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان کی مرکزی قیادت محب وطن اور علم وفضل میں مشہور و معتبر شخصیات پر مشتمل ہے اور یہی پاکستان کے تمام دینی مدارس و جامعات کے نمائندہ ہیں ۔
ملک بھر سے سے مزید