اسلام آباد ( تجزیہ، رحمان ) عمران خان کا یہ اعلان کہ وہ اس شرط پر معافی مانگنے کو تیار ہیں کہ انہیں ثبوت فراہم کیے جائیں کہ ان کی پارٹی کے کارکنان 9 مئی کو ہونے والی توڑ پھوڑ میں ملوث تھے زیرک اقدام ہے جس کا مقصد پارٹی کے قیدیوں کی رہائی یقینی بنانا ہے۔
اس سے وہ حکومت کیخلاف عوامی حمایت کو متحرک کر پائیں گے۔ بدھ کو اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی کے کارکن 9 مئی کے واقعے میں ملوث پائے گئے تو میں معافی مانگوں گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر پی ٹی آئی کے کارکن واقعی 9 مئی کے پر تشدد واقعات میں ملوث پائے گئے تو وہ انہیں پارٹی سے نکال دیں گے اور سزا بھی دیں گے۔ تاہم، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ یہ بات قبول کرنے کیلئے ضروری ہے کہ اُس دن کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لیا جائے۔
مبصرین اور تجزیہ نگار عمران خان کے اس بیان کی مختلف تشریح کر رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، عمران خان کے اس بیان کی ایک تشریح یہ ہے کہ اس تبدیلی کو پس پردہ مذاکرات سے جوڑا جا سکتا ہے۔
یہ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ کچھ طاقتور افراد، چاہے ان کا تعلق عدلیہ سے ہو یا کسی اور حلقے سے، پی ٹی آئی رہنما کو جیل سے نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان کے تازہ ترین بیان کو سپریم کورٹ کے اکثریتی ججوں کے حالیہ متنازعہ فیصلے کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔
فیصلے نے پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں واپس آنے اور مخصوص نشستوں کا دعویدار بننے کا بھی موقع دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے 8-5 کے فیصلے نے الیکشن کمیشن کے سابقہ فیصلے کو پلٹ دیا جس میں پی ٹی آئی کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں سے محروم کر دیا گیا تھا۔
ایک ایسے موقع پر جب بیشتر افراد کو اکثریتی فیصلے کا انتظار ہے، سپریم کورٹ کے دو ججوں کے لکھے گئے اختلافی نوٹ نے پی ٹی آئی کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ ان ججوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ آئین کی کچھ شقوں کو اکثریتی ججوں نے معطل کردیا ہے تاکہ پی ٹی آئی کو پارلیمنٹ میں مخصوص نشستیں حاصل ہو سکیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ موزوں فیصلہ تھا جس نے عمران خان کو اپنا بیان جاری کرنے کا موقع دیا۔ ان کی پارٹی کمزور لیکن برقرار ہے۔ عمران خان کی پارٹی ان کی قید کے دوران حکومت کو سخت ٹکر دینے میں ناکام رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عمران خان کو جیل سے باہر اپنے حامیوں کو متحرک کرنے، انہیں سڑکوں پر لانے اور مخصوص نشستوں کے حوالے سے عدالت کے فیصلے پر عمل کا مطالبہ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے حالیہ پریس کانفرنس میں واضح کہا گیا تھا کہ 9 مئی کے حوالے سے ادارے کی پالیسی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی نہ کسی تبدیلی کی توقع کرنا چاہئے۔ دیگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ مشروط اقبالیہ بیان پی ٹی آئی رہنما کی جاری قانونی لڑائی کو مزید پیچیدہ کر سکتا ہے۔
پی ٹی آئی کے ملوث ہونے کے امکان کو تسلیم کرتے ہوئے عمران خان نے خود کو تحقیقات اور قانونی چیلنجز کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ مزید یہ کہ ملوث پارٹی ممبران کو نکالنے اور سزا دینے کا بیان پی ٹی آئی میں اندرونی کشمکش کا باعث بن سکتا ہے۔
کچھ ملزم ارکان یہ دعویٰ کر کے جوابی کارروائی کر سکتے ہیں کہ انہوں نے بانی کی ہدایت پر اقدام کیا، یہ بات عمران خان کیخلاف ایک مضبوط قانونی دلیل ثابت ہو سکتی ہے۔