بنگلادیش کی عبوری حکومت میں فنکاروں کو شامل نہ کرنے پر معروف بنگالی اداکارہ ذکیہ باری مُمو ناراض ہوگئیں۔
حسینہ واجد حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں کا حصہ بننے والی نامور اداکارہ ذکیہ باری مُمو نے عبوری حکومت میں فنکاروں کی کمی پر شدید ردعمل دیا ہے۔
اداکارہ ذکیہ باری نے بھی حسینہ واجد کے خلاف ہونے والے عوامی احتجاجی مظاہروں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا، وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر سڑکوں پر احتجاج کےلیے نکلی تھیں۔
5 اگست کو شیخ حسینہ واجد کے استعفیٰ دینے اور ملک سے فرار ہونے کے بعد بنگلادیش میں 8 اگست کو عبوری حکومت تشکیل دی گئی تھی، جس کی قیادت نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات ڈاکٹر محمد یونس کر رہے ہیں۔
عبوری حکومت کی کابینہ میں 16 مشیروں کو بھی شامل کیا گیا، جن میں سابق گورنر بنگلادیش بینک صالح الدین احمد، ڈھاکا یونیورسٹی کے پروفیسر آصف نذر، سماجی کارکن عدیل الرحمان کے ساتھ ساتھ طلبہ تحریک کی قیادت کرنے والے دو طالب علم ناہید اسلام اور آصف محمود بھی شامل ہیں۔
تاہم عبوری حکومت کی مشاورتی ٹیم میں کسی بھی فنکار کو شامل نہیں کیا گیا، جس پر اداکارہ ذکیہ باری کی جانب سے افسوس کا اظہار کیا گیا ہے۔
اداکارہ نے اپنے بیان میں کہا کہ انہوں نے عبوری حکومت کی حلف برداری سے پہلے ہی کہا تھا کہ ملک کی نئی عبوری حکومت میں فنون لطیفہ کی جانب سے کسی کو شامل نہیں کیا گیا، کیا یہ ماضی کی کارروائیوں کا نتیجہ ہے؟
ذکیہ باری مُمو کی جانب سے بیان سامنے آنے پر ثقافتی حلقوں میں سوال اٹھایا جارہا ہے کہ بنگلادیش کی نئی عبوری حکومت میں فنکاروں کو کیوں نظرانداز کیا گیا۔
یاد رہے کہ بنگلادیش کی اداکارہ ذکیہ باری مُمو نے 2006 میں ماڈلنگ کے ذریعے شوبز میں قدم رکھا تھا، جس کے بعد وہ متعدد ٹی وی ڈراموں، فلموں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر کئی پروجیکٹ کرچکی ہیں۔