قومی معیشت میں کلیدی کردار رکھنے والا شہر ہونے کے باوجود بنیادی شہری سہولتوں کے معاملے میں کراچی کی حالت روز بروز ابتر ہوتی چلی جارہی ہے۔کراچی سٹیزن فورم کے تحت ہفتے کی شام کراچی کو موسمیاتی تبدیلی کے خوفناک خطرات سے بچانے کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب میں مسعود لوہار، محمد توحید، محمود عالم، ارشد جونیجو، ڈاکٹر قیصر سجاد اور نرگس رحمان پر مشتمل ماہرین ماحولیات نے اس ضمن میں جو تفصیلات بیان کی ہیں ان سے واضح ہے کہ شہرکو مکمل تباہی سے بچانے کیلئے تیزرفتار اقدامات ناگزیر ہوچکے ہیں۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ کراچی میں سڑکیں بارش کے نہیں سیوریج کے پانی میں ڈوب کر تباہ ہو رہی ہیں۔شہر کنکریٹ کا جنگل بن گیا ہے۔ آلوگی سے کراچی کی 80فیصد میرین لائف ختم ہوچکی ہے۔ 1996ءتک برساتی نالوں سے پانی بہہ جاتا تھا لیکن بعد میں تعمیرات نے صورتحال بدل دی۔ ملیر ندی میں صاف پانی تھا مگر اس میں سیوریج لائن ڈال دی گئی۔ شہر میں کچرا اٹھانے کا کوئی انتظام ہی نہیں جس سے آلودگی پھیل رہی تھی۔حالیہ گرمی میں دو ڈھائی ماہ کے دوران شہرمیں ہزاروں ہلاکتیں ہوئیں مگر رپورٹ نہیں ہوئیں۔ دنیا کے سالانہ درجہ حرارت میں 1.1فیصد اضافہ ہورہا ہے جبکہ پاکستان خصوصاً کراچی میں درجہ حرارت میں اضافے کی شرح سب سے زیادہ یعنی 1.6فیصد تک ہے۔ شہر کو بچانے کیلئے ماہرین کے تجویز کردہ اقدامات میںکراچی کی حقیقی ضروریات کے مطابق ماسٹر پلان کی جلدازجلد تیاری اور اس پر عملدرآمد کا آغاز، سیوریج سسٹم اورکچرا اٹھانے کے نظام کی اصلاح ،آلودگی ختم کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ شجرکاری ، بجلی پانی ٹرانسپورٹ کے نظام میں بہتری ، سرکلر ٹرین کی بحالی اور گڈ گورننس کا اہتمام خاص طور پر اہم ہیں۔ان تجاویز کے مطابق بلدیہ کراچی‘ حکومت سندھ اور وفاق سب کو کراچی کو تباہی سے بچانے میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے کیونکہ اس شہر کی بہتری پورے ملک کی خوشحالی کی ضامن ہے۔