اُس بازار میں خشک میوے اور مسالا جات کی کئی پرانی دکانیں تھیں۔ سالوں پہلے یہ دکانیں جس حالت میں تھیں، سالوں بعد بھی وہیں کی وہیں تھیں۔ سوائے اکبر کی دکان کے۔ اکبر نے یہ دکان دو سال پہلے اُس بازار میں کھولی تھی اور اب سب سے زیادہ ترقی کرگیا تھا، حالاں کہ اُس کی دکان پر اشیاء کے نرخ بھی باقیوں کی نسبت کم ہوتےتھے۔ باقی دکان دار اُسے پیٹھ پیچھے گالیاں دیتے، حاسدانہ بیان بازی کرتے۔ مگر اُس کا کام تھا کہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ حمزہ بھی اب ساراسامان اکبرہی کی دکان سے خریدتا تھا۔
’’اکبر بھائی! ماشاءاللہ، آپ نے بہت تھوڑے عرصے میں اپنا کاروبار خُوب چمکا لیا ہے۔ اللہ مزید برکت دے۔‘‘ ایک روز حمزہ نے کہا۔ ’’شکریہ‘‘ اکبر مُسکرایا۔ ’’اکبربھائی! ایک سوال پوچھوں، بُرا تو نہیں مانیں گے؟‘‘حمزہ پھر بولا۔ ’’نہیں یار، پوچھو۔‘‘ اکبر نے بہت ملائمت سے جواب دیا۔ ’’آپ کی اس ترقی کا راز کیا ہے؟‘‘حمزہ کی دل کی بات زبان پر آ ہی گئی۔ ’’راز تو کوئی نہیں۔ بس، مَیں اتنا کرتا ہوں کہ جو مال باقی دکان دارکلو میں خریدتے ہیں، مَیں وہ مَنوں میں خریدتا ہوں، تومجھےمال سستا پڑتا ہے۔
پھر مَیں مال خریدتے وقت پوری مارکیٹ چیک کرتا ہوں، جہاں سے سب سے سستا مال ملے، وہیں سے خریدتا ہوں، تو وہ مجھے مزید سستا پڑتا ہے۔ پھرمَیں آگے گاہکوں کو بھی باقی دکانوں کی نسبت کم قیمت ہی پر فروخت کرتا ہوں، لیکن پھربھی مجھے باقیوں کی نسبت زیادہ ہی منافع ہوتا ہے اور گاہک کا بھی فائدہ ہوجاتا ہے۔‘‘ اکبر نے سادگی سے کہا۔ ’’یعنی آپ گاہگ سے زیادہ بازار سےکماتے ہیں۔‘‘
حمزہ نے جواباً بہت پتے کی بات کی۔ ’’بالکل۔ اور کاروبار وہی کام یاب ہوتا ہے، جس میں گاہگ کو یہ اطمینان ہوکہ اُسےلُوٹا نہیں جارہا۔‘‘ اکبرنےاُس کا مطلوبہ سامان اُسے پکڑایا، تو حمزہ اس کی دانش مندی کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا۔