• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کلاس ختم ہوتے ہی ماہا فوراً میڈم سبرینہ کی طرف دوڑی۔ ’’ایکسکیوزمی میڈم! مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے۔‘‘ میڈم سبرینہ نے چشمے کی اوٹ سے اُسے گھورا۔ ’’آئیں، میرے روم میں تشریف لے آئیں۔ اِس طرح سرِ راہ بات کرنا اچھا نہیں لگتا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئیں۔ ماہا نے ایک لمحہ کچھ سوچا، پھر سر جھٹک کر اُن کے پیچھے چل دی۔

کمرے میں داخل ہوتے ہی میڈم اپنا پرس اور رجسٹر میز پر رکھ کر اپنی نشست پر بیٹھ گئیں اور اُسے اپنے سامنے دھری کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ’’جی فرمائیں، ایسی کیا بات ہے کہ جو آپ کلاس میں نہیں کر سکتی تھیں؟‘‘ میڈم سبرینہ نے گلاس میں پانی ڈالتے ہوئے پوچھا۔ ’’وہ میڈم… مَیں نے تو کلاس میں بھی بات کی تھی، مگر آپ نے مجھے ڈانٹ کر چُپ کروا دیا تھا۔‘‘ ماہا کی خود اعتمادی غضب کی تھی۔ 

’’ہممم … اور آپ کلاس میں ڈانٹ کھانے کے بعد دوبارہ اپنے موقف پر ڈٹ کر یہاں بحث کرنے آگئیں؟‘‘ میڈم سبرینہ نے کاٹ دار انداز میں اُسے دیکھا۔ ’’جی میڈم… یہ میرا موقف ہے اور اِسے تسلیم کیا جانا چاہیے، جہموریت اِسی کا نام ہے۔‘‘ ماہا نے خاصے نڈر انداز میں کہا۔ ’’ایک تو تم لوگ جمہوریت کو نہ جانے کن معنوں میں استعمال کیا کرتے ہو، جب کہ اس جمہوریت ہی کے لیےعلّامہ اقبال کہہ گئے ہیں ؎ جمہوریت اِک طرز حکومت ہے کہ جس میں… بندوں کو گِنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے۔ 

اور اِس وقت تم لوگوں کی یہ ساری نئی نسل، جو عقل کے اوزان پر پوری اُترے یا نہ اُترے، اپنے گھروں میں والدین اور گھر والوں کے لیے کچھ کرے، نہ کرے، اپنے حال پر ترس کھائے، نہ کھائے، نہ محنت کرے، نہ کرنے دے، مگر اٹھارہ سال کے ہوتے ہی اپنی گنتی ضرور پوری کرواتی ہے اور یہ گنتی جب بغیر شعور کے گِنواتی ہے، تو اِس دیس کا وہی حال کرتی ہے کہ ؎ اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں…دہقان تو مرکھپ گیا، اب کس کو جگاؤں…ملتا ہے کہاں خوشۂ گندم کہ جلاؤں…شاہین کا ہے گنبدِ شاہی پہ بسیرا۔‘‘ میڈم سبرینہ تو جیسے بَھری بیٹھی تھیں۔ سو، بولتی ہی چلی گئیں۔

’’لیکن… معذرت کے ساتھ میڈم! میرے دیس کی دھرتی… پیار کو ترستی ہے…پتھروں کی بارش ہی… اِس پہ کیوں برستی ہے… بولنے پہ پابندی… سوچنے پہ تعزیریں… پاؤں میں غلامی کی… آج بھی ہیں زنجیریں۔ بتائیں، یہ سب کچھ محض ایک ادارے ہی کا مسلّط کردہ نہیں ہے، اسٹیبلشمینٹ کا۔‘‘ وہ بھی ماہا تھی، بولنے پر آئی، تو پھرمیڈم کی ایک دھاڑ ہی پر خاموش ہوئی۔’’خاموش!‘‘ میڈم سبرینہ نے غصّے سے ٹیبل پر ہاتھ مار کر کہا۔ ’’یہ جن حروف نے تمہارے جملوں کو معنی دیئے ہیں، کبھی اِن حروف کو پہچاننے کی کوشش بھی کی ہے؟‘‘ تم لوگ ایک نظریاتی مُلک کی اساس رکھنے کے باوجود اِسی نظریے کو سرِ بازار نیلام کرنے پر تُلے ہوئے ہو۔ 

کیا گھروں میں جب تمہارے والد تم پر اپنا کوئی غلط فیصلہ مسلّط کرتے ہیں، تو کیا تم پڑوسیوں کے ساتھ مِل کر اُن کے ساتھ اُس وقت ایساہی سلوک کرتے ہو؟ اور اگر کرتے ہو، تو کیا گھروں میں تمہارے کورٹ مارشل نہیں ہوتے؟ سزائیں نہیں دی جاتیں، کیا گھر کے برتن بھانڈے جلا کر، گرا کر تم اپنے بڑوں کو بتاتے ہو کہ یہ سب غلط ہے؟ ارے… اتنی بڑی ریاست، انگریز سے چھین کر جب ہم الگ ہوئے تھے، تو اُس وقت دشمن نے ہمارے نظریات و عقائد پر وارکرتے ہوئے، کسی ایک ادارے میں نہیں، بلکہ سب اداروں میں اپنے افراد بٹھا دئیے تھے۔ جاؤ، پڑھو جا کر قدرت اللہ شہاب کی ’’شہاب نامہ‘‘، تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ اِس ریوڑ کو لاٹھی پکڑ کر ہانکتا ہوا حُکم ران ہی نہیں بلکہ دودھ میں پانی مِلاتا ہوا گوالا بھی برابر کا نقصان پہنچا رہا ہے۔‘‘ میڈم سبرینہ جذباتی ہو گئیں۔

’’بجا فرمایا آپ نے۔ لیکن میڈم جی! اِن سب کے پیچھے ایک ہی ہاتھ نہیں ہے، طاقت والا ہاتھ، جو سب کو چلا رہا ہے۔‘‘ ماہا بدستور بضد تھی۔ ’’اچھا تو وہ طاقت وَر ہاتھ تم سب کو پڑھائی سے روکتا ہے، مائکرو بنا کر نقل پر اُکساتا ہے، گلی گلی پھیری لگاتے پھل، سبزی فروش کو کم تول کر زیادہ روپے وصولنے پر مجبور بھی کرتا ہے۔ کلرک بادشاہ کے کان میں جا کر رشوت لینے کی ترغیب بھی بزورِ شمشیر دیاکرتا ہے اور تو اور، گھروں میں ایک دوسرے کی حق تلفی پر بھی گن پوائنٹ پر آمادہ کیا جاتا ہے؟‘‘ اب کے میڈم سبرینہ کا انداز ناصحانہ نہیں رہا تھا، طنزیہ ہوگیا تھا۔

’’لیکن میڈم! یہ سب تو اخلاقی اقدار ہیں اور اِن کا اُن اداروں کے ساتھ کیا لینا دینا، جہاں مُلکی سطح پہ بڑے پیمانے پر کرپشن، میرٹ کا قتلِ عام اور مُلک و قوم کی تقدیر کے سب چھوٹے، بڑے فیصلے ہوتے ہیں۔ یہ گلی کُوچوں میں پھیری لگانے والے افراد کی چھوٹی موٹی غلطیاں پورا مُلک تو نہیں کھا سکتی ناں!! آپ بڑوں کو درست کر نہیں سکتے، تو چھوٹے اور کم زور لوگوں ہی پر آپ کا بس چلتا ہے۔ ساری اخلاقی اقدار نیچے سے اچھی ہوں اور اوپر والے بری الذمہ؟؟ اِس سب کے پیچھے جو’’بڑا ہاتھ‘‘ ہے، آپ اُس کے خلاف بات کرنے سے مسلسل کترا رہی ہیں اور ہم سب بھی اُن سے ڈرتے ہیں۔‘‘ 

ماہا بے خوف تھی اور یہ بے خوفی، بد تمیزی کی حدوں کو چُھو سکتی تھی، اگر حدِ فاصل قائم نہ رکھی جاتی کہ باطل پرستوں نے اِس نسل کو بڑوں کے سامنے لاکھڑا کیا تھا۔ سبرینہ کو احساس ہوا کہ اگر سختی سے بات کی گئی تو یہ دستار بھی گر جائے گی۔ اُنہوں نے چند لمحے کچھ سوچا، اور پھر بات ختم کرنے کے انداز میں گویا ہوئیں۔ ’’ہمم… ٹھیک!! چلو، اِس موضوع پر پھر کبھی بات کریں گے۔ ابھی یہ بتاؤ کہ تمہاری اسٹڈیز کیسی جارہی ہیں؟‘‘ ماہا فاتحانہ انداز میں کُھل کے مُسکر ادی۔ ’’جی الحمدُللہ، بہترین۔‘‘ ’’گُڈ! اچھی بات ہے۔ اچھا، کل کےلیے جو ٹیسٹ دیا ہے، اُس کی تیاری کر کے آئیے گا، پھر بات کرتے ہیں۔‘‘ میڈم سبرینہ نے مُسکراتے ہوئے بات ختم کر دی۔

ماہا فتح مندانہ انداز میں، بہت جوش و خروش کے ساتھ میڈم کے کمرے سے باہر نکلی اور تھوڑی ہی دیر میں کوریڈور سے ایک طوفانِ بدتمیزی کی آوازیں آنے لگیں۔ ماہا نے باہر جا کراعلان کر دیا تھا کہ وہ میڈم سبرینہ کو’’ہرا کر‘‘ آگئی ہے۔ اور اب سب اِس ’’کام یابی‘‘ پر اُس سے ٹریٹ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اور… اندر کمرے میں بیٹھی میڈم سبرینہ نےبہت پُرتشویش، فکر انگیز نظریں بند دروازے پر گاڑ دیں۔

اُس بات کو کافی دن گزر چُکے تھے کہ ایک دن میڈم سبرینہ کے پاس اسٹوڈنٹس کا ایک مسئلہ لایا گیا، جس کی اصل متاثرہ درحقیقت ماہا ہی تھی۔ قصّہ کچھ یوں تھا کہ کسی طالبِ علم نے ماہا کا اسائنمینٹ چوری کرکے اپنے نام سے جمع کروا دیا تھا۔ سبرینہ تک بات پہنچی، تو اُنہوں نے ثبوت مانگا، جو ماہا نہیں دے سکی۔ بس ایک سہیلی اُس کی گواہی دے رہی تھی، جسے سبرینہ نے تسلیم نہیں کیا، تو ماہا کو بہت غصّہ آگیا۔ ’’میڈم! آپ بطور استاد یہ تو سمجھ سکتی ہیں کہ فرحان علی میں تو اتنیAbility (صلاحیت) ہی نہیں کہ وہ ایسا اسائنمینٹ تیار کر سکے۔ آپ اچھی طرح جانتی ہیں کہ یہ میرا ہی طرزِ تحریر ہے۔ 

آپ عرصے سے میرا کام دیکھ رہی ہیں اور آپ اِسے خُوب پہچانتی بھی ہیں، پھر آپ کیسے میری بات پر یقین نہیں کر رہیں؟‘‘ ’’دیکھیں ماہا! ایک طرف فرحان کہہ رہے ہیں کہ یہ اسائنمینٹ اُن کا ہے، دوسری طرف آپ مُصر ہیں کہ یہ آپ کا ہے، جب کہ یہ Submit پہلے فرحان نے کروایا ہے۔ اب آپ ہی بتائیں، مَیں کس کی بات مانوں اور کس کی جُھٹلائوں، جب کہ آپ کے پاس اپنے دعوے کی سچائی کا کوئی ثبوت بھی نہیں۔‘‘ سبرینہ نے جواباً نہایت متانت سے کہا۔’’میڈم! اِن کے چہرے پہ لکھا ہے، یہ جھوٹ بول رہے ہیں، لیکن اِن میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ یہ اپنا جُرم تسلیم کریں، اپنے کیے پر معافی مانگیں۔ 

آپ خُود اندازہ لگا سکتی ہیں کہ جو شخص محض چند نمبرز کے لیے کسی دوسرے کی تحریر چوری کر لے، اُس کا اخلاقی معیار کیا ہو گا؟‘‘ماہا بہت جذباتی ہو رہی تھی۔ ’’ارے بیٹا جی… یہ آپ چھوٹے موٹے معاملات میں اخلاقی اقدار اور معیارات کہاں سے لے آئیں۔ اخلاقیات تو…‘‘ سبرینہ کی بات منہ میں ہی رہ گئی۔ ماہا چمک کر بولی۔ ’’میڈم! یہ معاشرتی معاملات ہمیشہ نیچے ہی سے شروع ہو کر اوپر تک درست ہوتے ہیں۔ اگر نچلے دائرے ہی میں برائی ہوگی، تو وہ اوپر بھی تو جائے گی ناں۔ اِن صاحب کو آج نہ روکا گیا، تو کل کو ایسے ہی لوگ آگے چل کر مُلک میں کرپشن عام کریں گے۔‘‘ ’’اچھا! تو آپ نے تسلیم کرلیا کہ اخلاقی اقدار نیچے سے درست ہوں، تب ہی اوپر تک جا کر معاملات درست ہوتے ہیں۔‘‘ 

میڈم سبرینہ نے بڑے معنی خیز انداز میں کہا، تو ماہا نے الجھی ہوئی نگاہوں سے اُن کی طرف دیکھا۔ ’’جی میڈم! بالکل ایسا ہی ہے۔‘‘ ’’چلیں شُکر ہے کہ آپ کا اسائنمینٹ چوری ہوا، تو آپ نے جانا کہ ہمارے معاشرے کی عمومی اخلاقی اقدار کا جنازہ نکل چُکا ہے اور اِسی وجہ سے کوئی ایک نہیں، لگ بھگ تمام ہی ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں، کیوں کہ نیچے سے اوپر تک جاتے ہوئے چھوٹے چھوٹے سنپولیے اور مگرمچھ پَل کربڑے اژدہے، بڑے بڑے مگرمچھ بن جاتے ہیں اور پھر یہی اِس مُلک کی ساری ترقی و خوش حالی کو ہڑپ لیتے، نگل جاتے ہیں۔‘‘ماہا کو اپنی سابقہ ’’جیت‘‘ یاد آ گئی تھی۔ سو، اُس نے نظریں چُرالیں۔

’’چلیں، فرحان بیٹا! اب آپ خُود بتا دیں کہ یہ اسائنمینٹ آپ کا ہے یا نہیں۔ یقین کریں، سچ بولنے پر آپ کو جو سُکون و اطمینان اور جزا و نیکی ملے گی، اُس کا کوئی نعم البدل نہیں اور پھر اعترافِ گناہ،اظہارِ ندامت کے بعد تو جیسے کاندھوں سے گناہ کا سب بار اُتر جائے گا۔‘‘ اب سبرینہ نے اپنا رُخ فرحان علی کی طرف کیا، تو اُس نے شرمندگی سے نظریں جُھکا دیں۔ ’’جی میڈم! یہ ماہا ہی کا اسائنمینٹ ہے، جو مَیں نے اپنے نام سے جمع کروایا، لیکن اِس میں ماہا کا بھی قصورہے۔ یہ ہمیشہ ہم سب کی تضحیک کرتی ہے، سب کو ڈی گریڈ کرتی ہے، تو مَیں نے سوچا، اِسے تھوڑی سزا مل جائے گی اور میرا فائدہ بھی ہو جائے گا۔‘‘

ماہا غصّے سے کچھ بولنے ہی والی تھی کہ میڈم سبرینہ نے اُسے ٹوک دیا۔ ’’ثابت یہ ہوا کہ بُرائی، خراب رویّوں، اخلاقی معیارات کی ہو یا کسی بھی اور نوعیت کی، اُسے نچلی سطح ہی سے درست نہ کیا جائے، تو وہ آگے چل کرناسور بن جاتی ہے، جو پھر رفتہ رفتہ پورے معاشرے ہی کو گھن کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ اِس لیے ہمیشہ کوشش کریں کہ اپنے معاملات اپنی ذات ہی سے درست کرنے شروع کر دیں۔ ان شاءاللہ جلد ہی یہ اخلاقی اقدار و معاملات کی بہتری کا سفر اوپر تک جاتا نظر آئے گا۔ ہم نہ سہی، ہمارے بچّے تو ایک اچھا معاشرہ، ایک درست معنوں میں بہترین ’’اسلامی جمہوریۂ پاکستان‘‘ دیکھ سکییں گے۔‘‘ اس ساری سچویشن میں ساری کلاس ہی خاصی جذباتی ہو گئی تھی۔ سو، سب ہی نے ہم آواز کہا۔ ’’ان شاءاللہ تعالیٰ‘‘۔

’’ہاں، ایک اور بات بھی ثابت ہو گئی کہ استاد، استاد ہی ہوتا ہے۔ طالبِ علم کبھی اُن کی علمیت و قابلیت اور تجربے کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مَیں اعتراف کرتی ہوں کہ میڈم جیت گئیں اور مَیں ہار گئی۔‘‘ سبرینہ نے نظریں جُھکائے جُھکائے آہستگی سے اقرار کیا، تو سبرینہ نے بے ساختہ اُسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ ’’نہیں چندا! ہم ایک ہیں۔ ایک کی ہار، کبھی بھی دوسرے کی جیت نہیں ہو سکتی۔ ہم میں سے کوئی بھی ہارا ناں تو پوری قوم کو اُس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ 

اِس لیے ہمیشہ کوشش کریں کہ مُلک کا کوئی بھی ادارہ ہو یا شعبہ، دوسروں کے سامنے اُس کی برائی یا تذلیل کر کے مُلک توڑنے والوں میں شامل ہونے کے بجائے، اُن لوگوں کی اصلاح و صفائی کرنے والوں میں شامل ہونا ہے۔ اور یہ کوشش قلم سے، دہن سے، پورے شعور کے وزن ہی سے ممکن ہے۔ چلو آؤ، سب آواز سے آواز مِلا کر یہ دُعا کرتے ہیں کہ ؎ خدا کرے کہ مِری ارضِ پاک پر اُترے…وہ فصلِ گل، جسے اندیشۂ زوال نہ ہو…یہاں جو پھول کِھلے، وہ کِھلا رہے برسوں…یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو… یہاں جو سبزہ اُگے، وہ ہمیشہ سبز رہے…اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو…گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں…کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو…خدا کرے کہ نہ خم ہو سرِ وقارِ وطن…اور اِس کے حُسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو…ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال…کوئی ملول نہ ہو، کوئی خستہ حال نہ ہو…خدا کرے کہ مِرے اک بھی ہم وطن کے لیے…حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو۔‘‘