بھارت کا نام عالمی سطح پر اکثر ایک بڑی جمہوریت کے طور پر لیا جاتا ہے، لیکن اسکے پردے کے پیچھے ایک خطرناک حکمتِ عملی چھپی ہوئی ہے جو کہ اپنے سیاسی مخالفین کو بیرونِ ملک نشانہ بناتی ہے۔ خاص طور پر حالیہ دنوں میں کینیڈا میں ایک سکھ رہنما کے قتل کا واقعہ نہ صرف تشویش ناک ہے بلکہ بین الاقوامی برادری کی خاموشی پر بھی سوالیہ نشان اٹھاتا ہے۔ اقوامِ متحدہ اور امریکہ جیسی عالمی تنظیمیں، جو انسانی حقوق کے تحفظ کی دعویدار ہیں، کی جانب سے خاموشی مایوس کن ہے۔امریکہ اور اقوامِ متحدہ کی خاموشی نے اس معاملے کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔ یہ خاموشی اس بات کا اشارہ دیتی ہے کہ شاید ان عالمی طاقتوں کے اپنے مفادات ایسے ہیں جو انہیں بھارت کی مخالفت کرنے سے روکتے ہیں۔
اس تمام صورتحال میں پاکستان سمیت دیگر ممالک کو اپنے اقدامات پر غور کرنا چاہیے۔ بھارت کی اس حکمتِ عملی کے خلاف ایک مضبوط موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خطے میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکا جا سکے۔ بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ بھارت کو ان غیر قانونی اقدامات سے باز رکھنے کیلئے فوری اقدامات کرے۔ اقوامِ متحدہ کو بھی اس مسئلے پر توجہ دیتے ہوئے ایک غیر جانبدارانہ تحقیقات کرانی چاہیے تاکہ حقیقت سامنے آ سکے۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ بھارت کی اس پالیسی کے خلاف عالمی برادری کا متحد ہونا ناگزیر ہے۔ اگر آج اس مسئلے کو نظرانداز کیا گیا تو مستقبل میں اس کے نتائج مزید سنگین ہو سکتے ہیں۔ عالمی تنظیموں کی خاموشی صرف بھارت کو ہی نہیں بلکہ خطے کے دیگر ممالک کو بھی انسانی حقوق کی پامالی کی جانب مائل کر سکتی ہے۔ اسلئے ضروری ہے کہ تمام ممالک اس معاملے پر غور کریں اور ایک مشترکہ حکمتِ عملی کے تحت ان مسائل کا حل تلاش کریں۔بھارت کی جانب سے مخالفین کے قتل کے واقعات کو نظرانداز کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بین الاقوامی برادری کی اخلاقی ذمہ داریوں پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ بھارت کیساتھ تجارتی اور سفارتی تعلقات کے باعث بہت سی بڑی طاقتیں اس مسئلے پر کھل کر بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ امریکہ اور اقوامِ متحدہ جیسی عالمی تنظیموں کو بھارت کے اس رویے پر سخت ردِعمل دینا چاہیے تھا، لیکن ان کی خاموشی بین الاقوامی ضمیر کے حوالے سے ایک بڑا سوال بن گئی ہے۔ایسی خاموشی کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عالمی طاقتیں اپنے تجارتی مفادات اور جغرافیائی مقاصد کو انسانی حقوق سے مقدم سمجھتی ہیں۔ بھارت کے اقدامات کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے، یہ طاقتیں اس بات پر توجہ دیتی ہیں کہ بھارت کے ساتھ ان کے تعلقات میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔
امریکہ کی خاموشی کی ایک اور وجہ اس کے اپنے جغرافیائی مفادات ہو سکتے ہیں۔ بھارت ایک اہم اتحادی ہے اور امریکہ اسے خطے میں چین کے اثر و رسوخ کے مقابلے میں ایک مضبوط کھلاڑی کے طور پر دیکھتا ہے۔ اسلئے، امریکہ بھارت کے داخلی مسائل پر اعتراض کرنے کے بجائے، اس کی حمایت کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔ اس رویے نے بھارت کو مزید حوصلہ دیا ہے کہ وہ اپنے مخالفین کے خلاف بیرون ملک کارروائیاں جاری رکھے، کیونکہ اسے یقین ہے کہ عالمی طاقتیں اس پر کوئی عملی قدم نہیں اٹھائیں گی۔اسی طرح، اقوامِ متحدہ کا کردار بھی مشکوک رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کیخلاف آواز اٹھانے کا دعویٰ کرتی ہے، لیکن اس کی عدم مداخلت اور عدم عملداری نے عالمی سطح پر اس کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ کی طرف سے بھارت کیخلاف کارروائی نہ کرنا بین الاقوامی برادری کی عدم دلچسپی اور اس کے مؤثر کردار میں ناکامی کا مظہر ہے۔
بھارت کے اقدامات کے تناظر میں، پاکستان اور دیگر ممالک کو مل کر ایک جامع حکمتِ عملی تیار کرنی چاہیے تاکہ اس مسئلے کا موثر حل تلاش کیا جا سکے۔ پاکستان کو اس معاملے پر بین الاقوامی فورمز پر اپنی آواز اٹھانے کیساتھ ساتھ عالمی تنظیموں پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ بھارت کی اس پالیسی کیخلاف سخت اقدامات کریں۔ ساتھ ہی، عالمی برادری کو بھی چاہئے کہ وہ بھارت کی مخالفین کے خلاف کارروائیوں کی تحقیقات کرائے اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔بین الاقوامی برادری، خاص طور پر امریکہ اور اقوامِ متحدہ، کو اپنے اصولوں اور ذمہ داریوں پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے مؤثر اقدامات کرنے چاہئیں۔ بھارت کیخلاف اقدامات نہ صرف متاثرہ افراد کیلئےانصاف فراہم کرینگے بلکہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کے احترام کو بھی فروغ دینگے۔ یہ وقت ہے کہ عالمی برادری مشترکہ طور پر بھارت کی اس پالیسی کے خلاف کھڑی ہو، تاکہ عالمی امن اور استحکام کو برقرار رکھا جا سکے۔