ایک طبی جریدے نے انکشاف کیا ہے کہ ماہرینِ امراض قلب اور دل کے سرجنز گزشتہ 60 برسوں سے مصنوعی دل تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
غیر ملکی میڈیا ’ڈی ڈبلیو‘ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں پہلی مرتبہ ہائی ٹیک مصنوعی دل ایک دہائی قبل 1982ء میں لگانے کی کوشش کی گئی تھی، اس ناکامی کے بعد سائنسدان اس شعبے میں تاحال کوئی انقلاب برپا کرنے سے قاصر رہے ہیں۔
اس ناکامی کی وجہ بتاتے ہوئے مصنوعی دل بنانے کے ماسٹر مائنڈ، فرانسیسی ہارٹ سرجن ایلین کارپینٹیئر کا کہنا ہے کہ دل دراصل ایک سادہ سا عضو ہے جو ایک پمپ، چار چیمبرز، چند وَالوز، ٹیوبز اور قدرتی وائرنگ پر مشتمل ہے۔
ہارٹ سرجن ایلین کارپینٹیئر کا کہنا ہے کہ جب یہی سادہ سا عضو کام کرنا چھوڑ دیتا ہے تو انسانی زندگی خطرے سے دو چار ہو جاتی ہے، دل کی تکلیف میں مبتلا شخص کو سانس لینے میں بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایلین کارپینٹیئر کے مطابق ایسی صورتِ حال میں زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے ایک صحت مند نئے دل کی ضرورت پڑتی ہے، دل عطیہ کرنے والوں کی شدید کمی کے سبب ہمیں مصنوعی دل تیار کرنا پڑے گا تاکہ قیمتی انسانی زندگی کو بچایا جا سکے۔
’ڈی ڈبلیو‘ کے مطابق حالیہ برسوں کے دوران 50 مصنوعی دل لگائے گئے ہیں۔
جدید ترین سینسرز کا استعمال کرتے ہوئے یہ مصنوعی دل ایلین کارپینٹیئر نے بنائے تھے جو مریضوں کی جسمانی سرگرمیوں کے مطابق ڈھل سکتے ہیں۔
ان مصنوعی دلوں کو ’کارمٹ ہارٹ‘ کا نام دیا گیا ہے جس کی پہلی بار پیوندکاری ایک 76 سالہ شخص میں کی گئی تھی، ’کارمٹ ہارٹ‘ کے ساتھ 76 سالہ مریض مزید 74 دن تک زندہ رہا تھا۔
رپورٹ کے مطابق 50 میں سے 15 لوگوں کے سینوں میں ’کارمٹ ہارٹ‘ تاحال دھڑک رہا ہے جبکہ باقی مریض وفات پا چکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ’کارمٹ ہارٹ‘ کا حجم قدرتی دل کے مقابلے میں بڑا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ مصنوعی دل چھوٹے سینہ رکھنے والے مریضوں کے لیے موزوں نہیں۔
رپورٹ کے مطابق مصنوعی دل کی خواتین کے سینوں میں پیوندکاری نہیں کی جا سکتی۔
’کارمٹ ہارٹ‘ تقریباً 250 اجزاء یا پُرزوں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں سے کسی ایک بھی پرزے کی خرابی مریض کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ مصنوعی دل ’کارمٹ ہارٹ‘ ایک عارضی حل ہے۔
دوسری جانب محققین خنزیر کے دلوں اور ٹشوز کے ساتھ بھی تجربات کر رہے ہیں جبکہ تاحال یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا خنزیر کا دل ان مصنوعی دلوں سے زیادہ کامیاب رہے گا یا نہیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ تاحال سائنسدان ایسا کوئی بھی مصنوعی دل بنانے میں ناکام ہیں جو انسان کے سینے میں طویل عرصے تک دھڑک سکے اور انسانی قیمتی زندگی کو بچا سکے۔