• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زرعی معیشت ہونے کے ناتے ملک کو تیزی سے بڑھتی آبادی کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ برآمدات بڑھانے کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔اس وقت زرعی شعبے میں برآمدات کا بڑا دارومدار چینی اور چاول جبکہ پھلوں میں آم اور کینو پر ہے۔چند برسوں سے یہ بات مشاہدے میں آرہی ہے کہ جونہی گنے کا کرشنگ سیزن نزدیک آتا ہے،ملک میں چینی کی مصنوعی قلت پیدا کرکے اس کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جاتا ہے۔بعد ازاں زیادہ پیداوار کو بنیاد بناکراسے برآمد کرنے کا پروانہ حاصل کرلیا جاتا ہے،ملک سے گندم اور چینی اسمگل کیے جانے کا رجحان عرصے سے چلا آرہا ہے۔اس ساری صورتحال کے تناظر میں صرف 6برس میں چینی کی قیمت 45روپےسے بڑھ کر 160روپے فی کلوگرام پر جاپہنچی ہے۔حالیہ دنوں میں ایک طرف چینی برآمد کرنے کی منظوری دی جارہی ہے تو دوسری طرف اس کی قیمتوں میں نئے اضافے کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ وزارت خزانہ کا دعویٰ ہے کہ اس نے چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کیلئے حکمت عملی تیار کرلی ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت قیمتوں میں اضافے کے عوامل کا مکمل جائزہ لیتی رہے گی جبکہ یومیہ بنیاد پر پرائس مانیٹرنگ کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔جمعہ کے روز اقتصادی رابطہ کمیٹی نے اپنے اجلاس میں ایک لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی منظوری دیتے ہوئے گنے کے کاشتکاروں کو رقوم نہ دینے والی شوگر ملوں کے خلاف کارروائی کی شرط رکھی ہے۔یہ حکومتی اقدام ناگزیر ہے تاہم خیال رہے کہ متعلقہ محکموں میں موجود بدعنوان عناصر حکومتی کوششیں ناکام بنانے کا موجب بنتے ہیں،جن کی سہولت کاری سےچینی کی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوز مافیا کوکھل کھیلنے کا موقع ملتاہے۔جب تک ملک سے اس غیرقانونی کلچر کو ختم نہیں کیا جاتا چینی سمیت دوسری اشیا کی قیمتیں کنٹرول میں رکھنے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔

تازہ ترین