پاکستان اندرونی اور بیرونی سطح پہ کئی طرح کے معاشی چیلنجز سے نبرد آزما ہے ، پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باوجود حکومتی سطح پر اسے کم سے کم ظاہر کرنے کی روایت جاری ہے ، جس سے سرکاری دفاتر کے بابو کامیابی سے سیاسی حکومتوں کو گمراہ کرنے کا و طیرہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ہمارے بیشتر سیاستدان اور تمام حکمرانوں کو عملی طور پر عوام کے حقیقی معاشی مسائل کا ادراک نہیں ہو تا اور نہ ہی اس کا احساس ہوتا ہے ، البتہ سیاسی بیان بازی اور پوائنٹ اسکورنگ میں ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی دوڑ میںوہ ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں ، اس وجہ سے عملی طور پر انہیں عام آدمی کے حقیقی معاشی مسائل کا احساس ہی نہیں ہوتا۔
اس وقت پاکستان کے 90فیصد عوام کی قوت خرید ہر آئے دن کم سے کم ترہو تی جا رہی ہے ، غریب اور مڈل کلاس تقریباََایک جیسی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، جب کہ معاشی طور پر کچھ بہتر لوگ بھی مطمئن نظر نہیں آرہے ، کاروباری حالات بھی چونکہ ساز گار نہیں ہوپا رہے چنانچہ اس کی وجہ سے سیاسی اور معاشی عدم استحکام ہے ، جس کو حل کرنے کے لئے بہتر حکمت عملی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
اس کے لئے با اختیار طبقوں کو مل بیٹھ کر سنگل ایجنڈے پر سوچ بچار کرنا ہو گا، اس لئے کہ غیر یقینی صورت حال کی وجہ سے کچھ ایسے عناصر پاکستان کی سالمیت کے لئے مسائل پیدا کر رہے ہیں ، جن کو بہتر نظام انصاف کے ذریعے قانون کی گرفت میںلایا جا سکتا ہے۔ان عناصر میںمصنوعی گرانی پیدا کرنے والے اور ذخیرہ اندوز شامل ہیں جن کے خلاف بہر صورت ایکشن لینا ہو گا، جن کی وجہ سے طلب اور رسد کا توازن قائم نہیں رہتا۔ اسی طرح معاشی فرنٹ پر بہتر سے بہترین اکنامک گورننس کو یقینی بنایا جائے، اس کے لئے اکنامک مینجمنٹ سسٹم کو بہتر بنانا ہو گا ۔جس میں سب سے اہم کردار ہماری پارلیمنٹ ، وزراء اور پالیسی سازوں کو ادا کرنا ہو گا ، پاکستان کےان پریشان کن حالات کی وجہ سے نوجوانوں اور خاندانوں کے باہر جانے کا رحجان روکنے کے لئے داخلی سیکورٹی کو ہر شہر اور بستی میں یقینی بنانا ہو گا ،اس طرح ملک میں بزنس کا ماحول سازگار بنانے کے لئے ایسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جن سے صنعتی سرگرمیوں میں اضافہ ہو اور روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہوں ، تاکہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی غیر یقینی صورتحال ختم ہو سکے، اس کے لئے ملک میں معاشی اور سماجی انصاف کے لئے موثر اصلاحات پر عمل درآمد از حد ضروری ہے ، ورنہ سیاسی بیان بازی اور پریس ریلیزسرگرمیوں سے عوام کو مطمئن کرنے سے کام نہیں چلے گا۔
ہمارے نوجوان ہمارا اثاثہ ہیں ، ہمارے سیاسی قائدین اُن کے بہتر مستقبل کے لئے پالیسیاں بنائیں ، پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سے کام نہیں چلے گا ، بلکہ عملی طور پر کچھ کر کے دکھانا ہو گا ، اگر آپ ایسا نہ کر سکے تو سیاسی اداروں پر عوام کا اعتماد اُٹھ سکتا ہے جس کی قیمت بھی شاید انہیں چکانی پڑے،عوام جو کہ واضح طور پر تقسیم ہو تے جا رہے ہیں ، انہیں بہتر راہنمائی سے متحد کر کے ایک قوم بنانے کی سعی کرنا ہو گی، اس کے لئے سماجی اداروں اور میڈیا کے مثبت کردار سے بھی عوامی پریشانیوں کے خاتمہ میں مدد مل سکتی ہے۔