• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کشور حسین شاد باد کو آزاد ہو ئے 77برس بیت چکے۔ ان برسوں میں ہم چاہے کچھ بھی نہ ہوئے ہوں لیکن آزاد ضرور ہو گئے ہیں،کوئی بھی ایسا میدان نہیں جس میں ہم آزاد نہ ہوئے ہوں،دوسرے ملک جب آزاد ہوتے ہیں تو انہیں سیاسی آزادی حاصل ہوتی ہےلیکن ہم آزاد ہوئے ہیں تو ہم نے زندگی کا ہر گوشہ آزاد کر لیا ہے۔ہم معاشی، ثقافتی، مذہبی، اخلاقی اور ادبی میدان میں آزاد ہیں، یہاں تک کہ سینما اور ٹی وی کے میدان میں بھی ہمیں آزادی حاصل ہے،رہا سوال صحافت کا تو ہماری صحافت بھی بالکل آزاد ہے، سیاست میں ہم جتنے آزاد ہیں اتنا آزاد دنیا کا کوئی بھی دوسرا ملک نہیں ہے، سیاست میں ہم غیر ملکی غلامی سے ہی آزاد نہیں ہوئے ہیں بلکہ ہر پالیسی سے بھی آزاد ہو گئے یہاں تک کہ اپنے فیصلےخود کرنے سے بھی آزاد ہو گئے ہیں۔

ہمارے بڑے سے بڑے رہنما کے بارے میں کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ جہاں ہے وہیں رہے گا کہ وہ آزاد ہے، جس پارٹی کا نمک کھایا ہے اسی کا ساتھ نبھائے گا یا اب تک جس کی مخالفت کرتا رہا ہے اس کی مخالفت کرتا رہے گا کہ وہ آزاد ہے، کوئی بڑے سے بڑا نجومی یا جوتشی بھی پتہ نہیں چلا سکتا کہ ہمارا لیڈر کب قلا بازی کھائے گا کب یو ٹرن لے گا، کب خیمہ بدل لے گا کہ وہ آزاد ہے۔وہ جسے آج گالی دے رہا ہے شاید کل اسے گلے لگائے اور آج جسے گلے لگا رہا ہے کل اس کا گلا کاٹ دے! مطلب یہ ہے کہ ہماری سیاست اور سیاستدان، ہمارےادارے اور انکے سربراہ، ان سب پر کوئی پابندی نہیں، ہمارے آزاد ملک میں جتنی آزاد ہماری سیاست اور ادارےہیں اتنی آزادی کسی اور شعبے میں نہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں اسے کرنے کی انہیں پوری آزادی ہے کس کی مجال ہے جو ان کی آزادی میں رکاوٹ بنے۔ جس ملک کے لیڈران کرام اتنے آزاد ہیں کہ انہیں آزادی کے علاوہ کچھ اور دکھائی نہیں دیتا تو مان لینا چاہیے کہ ملک حقیقت میں آزاد ہے، ہماری اس آزادی کو دیکھتے ہوئے ہمارے ملک کا سرمایہ بھی آزاد ہے اور سرمایہ دار بھی۔ پیسے اور سرمائے کے معاملے

میں جو آزادی چور کو حاصل ہے وہی جیب کترے اور اسمگلر کو بھی ملی ہوئی ہے۔ ہمارے ملک کا سرمایہ آزادی سے ادھر اُدھر گھومتا ہے اسے پرہیز ہے تو صرف غریبوں سے، مزدوروں اور کسانوں سے، وہ لیڈروں سے لے کر غنڈوں اور بدمعاشوں تک کی گود میں بیٹھنے سے قطعی نہیں شرماتا، بینکوں سے اربوں روپے معاف کروانے والوں سے نہیں جھجکتا، جو جتنا بڑا سمگلر جتنا بڑا منافع خور جتنا بڑا بینک کرپٹ ہے وہ اتنا ہی پیسے والا ہے ہمارے وطن عزیز میں چور چوری کرنے کیلئے، ڈاکو ڈاکا ڈالنے کیلئے،ا سمگلر اسمگلنگ کرنے کیلئے، تاجر کالا دھندا کرنے کیلئے تو افسر رشوت لینے کیلئے آزاد ہیں۔ آپ چاہیں تو دوا میں زہر ملائیں یا دالوں مسالوں میں اینٹ پتھر یا آٹے میں ریت، اس آزاد ملک میں آپ کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔

77 برس میں ہم نے بہت کچھ دیکھا اور سنا ہے لیکن جو حاصل ہے وہ کیا ہے، دشمنی، جنگیں، اسلحہ، مزائیل، ایٹم بم، ناداری، استحصال، افلاس، جرائم، جہالت، انتشار، دہشت گردی، تعصبات، توہمات، انتہا پسندی، مذہبی جنونیت، عسکریت پسندی، رشوت، چوری، ڈاکے، اجتماعی خود کشی اور قتل و غارت.... اس تناظر میں جب میں اپنی امن پسندی، عقل دوستی و عقل پرستی، سیکولرازم، خیر سگالی، اخوت، عدم تشدد، روشن خیالی، اور خوشحالی کی خواہش کو دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے نئے ملک ہالینڈ کی یاد آتی ہے، میں سوچتا ہوں کہ پاکستان میں ہالینڈ کی طرح جمہوریت، رواداری، امن ،سلامتی، سیکولر ازم ،بھائی چارہ، حقیقت پسندی، وقار، انسانی عظمت اور دیانت داری کی فضا کیوں سازگار نہیں ہو سکتی؟ آج جب ملک عزیز میں جرائم،جہالت، بھوک، لوٹ کھسوٹ، دکھ درد اور تاریکیوں کا راج ہے ان حالات میں سیکولرازم، افہام وتفہیم، عدم تشدد ،بھائی چارہ، خوشحالی، شرافت، عظمت، عروج، ترقی، دیانتداری ،وقار ،شائستگی، حقیقت پسندی، عقل دوستی، روشن خیالی، ترقی پسندی اور امن پسندی کی اہمیت پہلے سے کہیں بڑھ جاتی ہے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم حالت جہاد میں رہنے کی بجائے ناداری، افلاس، جہالت جرائم اور مذہبی جنونیت کیخلاف جہاد شروع کریں لیکن سماج میں تبدیلی لانے کے بجائے حالات کو جوں کا توں رہنے دینے میں ہی عافیت محسوس کی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ میں اور میرے جیسے لوگ زندگی کو اپنی ڈگر پر لانے کی سعی کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔

ہو تو بدل ڈالو نظام گلشن!

منتشر ہو تو مرو، شور مچاتے کیوں ہو

تازہ ترین