قارئین !پاکستان میںسیاسی جوڑ توڑ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ ماضی میں شاید ہی ایسا وقت گزرا ہو جب پاکستان میں جوڑ توڑ کی سیاست نہ رہی ہو۔ یہاں ہر جماعت کی سیاسی قیادت بیک وقت اس کوشش میں رہتی ہے کہ وہ مقتدر حلقوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلا کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ سکے۔ اسی لیے یہاں جمہوری روایات مستحکم نہیں ہو پائیں اور موجودہ صورتحال میں ان کے مستحکم ہونے کے امکانات بھی دکھائی نہیں دیتے۔ اگر سیاسی قیادت مقتدر حلقوں کی بجائے ملک اور عوام کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے جمہوری اصولوں پر عمل کرے اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے اقدامات کرے تو نہ صرف بہت سے مسائل فوری طور پر حل ہوسکتے ہیں بلکہ سیاسی قیادت کو عوام کی طرف سے ایسی حمایت بھی حاصل ہوسکتی ہے کہ وہ مستقبل میں مقتدر حلقوں کی دست نگر نہیں رہے گی۔حکمران جماعت کے سربراہ نواز شریف کی جانب سے پارٹی اجلاس کے بعد غیر مشروط طور پر تمام سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت اور مل بیٹھنے کی ضرورت کا اظہار اور اس کے پس منظر میں صدر ،وزیر اعظم کی مولانا فضل الرحما ن سے ملاقات اور محمود خان اچکزئی کے انکشافات ،کسی نئے سیاسی منظر کا اشارہ ہویا نہ ہو لیکن کشیدہ سیاسی صورتحال کو معمول پر لانے کی ایک مستحسن کوشش ضرور ہے ،لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ فریقین صرف پوائنٹ اسکور نگ کر رہے ہیں یا واقعی سنجیدہ ہیں ۔ہم روز اول سے یہ بات ایک تسلسل سے کہتے آرہے ہیں کہ سیاسی عدم استحکام کے ساتھ ملک نہیں چلایا جاسکتا ،وہی بات اگر آج حکمران جماعت کے سربراہ نواز شریف نے بھی محسوس کی ہے تو خوش آئند امر ہے ،جس سے امید کی کرن پیدا ہوئی ہے ۔نہیں بھولنا چاہئے کہ اپوزیشن خصوصاََ پی ٹی آئی ،حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان معمول کے اختلافات نہیں ہیں ،بلکہ ایک بہت بڑی خلیج واقع ہے ،لیکن جمہوریت کا یہی حسن ہے کہ بڑے سے بڑے اختلاف یہاں تک کہ دشمنیاں بھی بات چیت سے طے کی جاسکتی ہیں ، اس حوالے سے جو بھی لیڈر پہلا قدم اٹھائے گا ، وہی فاتح ہوگا۔عمران خان کے دور ِحکومت میں شہباز شریف نے میثاق جمہوریت کی بحالی اور میثاق معیشت کی بات کی تھی جسے اس وقت کی حکومت نے تسلیم نہیں کیا تھا،اب شہباز شریف خود حکومت میں ہیں ،لہٰذا لازم ہے کہ وہ اس جانب پیش رفت کریں ، جمہوری معاشروں میں بات چیت اور صلح کی پیش رفت ہمیشہ حکومت کی جانب سے ہی کی جاتی ہے ،کیونکہ اختیار اور اقتدار اسی کے پاس ہے ،کسی کو ریلیف دینے کا اختیار بھی اسی کے پاس ہے،اس حوالہ سے اچکزئی کی بات چیت اہم ہے ،اس حد تک پیش رفت اگر ہوچکی ہے تو یقیناً یہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سمیت تمام اسٹیک ہولڈر مل کر بیٹھیں اور فیصلہ کریں کہ کسی بھی غیر سیاسی یا غیر ملکی طاقت کو مداخلت کی اجازت دئیے بغیر ملک کو آئین کے مطابق چلایا جائے گا اور تمام آئینی ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر اپنا کام کریں گے ،عدلیہ کو آئین سازی سے گریز کرنا ہوگا،اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی بندوبست سے خود کو الگ کرنا ہوگا اور سیاستدانوں کو ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنے اور ملک کے مسائل ذاتی و سیاسی مفادات سے بالا تر ہو کر آئین پاکستان کے تحت پارلیمنٹ کے اندر حل کرنا ہوں گے۔اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ تمام اسٹیک ہولڈر ز میں ایسے عناصر کی کمی نہیں جن کا مفاد ہی اس انتشار سے وابستہ ہے، وہ کسی قیمت پر نہیں چاہیں گے کہ سروں سے اوپر لہراتی تلواریں میانوں کے اندر چلی جائیں اور باہم دست و گریباں سیاسی و قائدین ایک دوسرے سے بغل گیر ہوجائیں ،ان عناصر سے خبردار رہنا بہت ضروری ہے ۔
دوسری جانب معاشی حوالے سے جو بہتری کے آثار دکھائی دے رہے ہیں انہیں سامنے رکھتے ہوئے حکومت کی طرف سے یہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کی رقم مل جائے گی اور اس رقم کے حصول کے لیے عالمی ادارے کی پیشگی شرائط پوری کر لی جائیں گی۔ اس سلسلے میںپاکستان نے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے قرض رول اوور کرنے کی درخواست کر رکھی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے سعودی عرب سے 1.2ارب ڈالر قرض کی درخواست بھی کی ہوئی ہے۔ آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے حکومت صرف دوست ممالک سے تعاون کی درخواست ہی نہیں کررہی بلکہ عوام پر بھی ہر طرح سے بوجھ ڈالا جارہا ہے ۔ن لیگ کی حکومت مرکز اور پنجاب میں معاشی بہتری کے لیے جو اقدامات کررہی ہے ان کی اہمیت سے انکار تو نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ڈاکٹر قیصر بنگالی جیسے سنجیدہ ماہر معاشیات کا حکومتی کمیٹیوں سے استعفیٰ یہ بتاتا ہے کہ بہت سے ایسے مسائل موجود ہیں جن کے حل کے لیے حکومت مطلوبہ اقدامات سے گریز کررہی ہے۔ قیصر بنگالی کے بیان سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ حکومت اشرافیہ اور بیوروکریسی کے مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کررہی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ بیوروکریسی اور اشرافیہ کے گٹھ جوڑ نے ہی پاکستان کو اس حال تک پہنچایا ہے کہ اب ہم غیر ملکی اداروں اور دوست ممالک کے مالی تعاون کے بغیر اپنے پائوں پر کھڑے ہو ہی نہیں سکتے۔ آج نہیں تو کل حکومت کو یہ فیصلہ کرنا ہی پڑے گا کہ ملک کی معیشت بیوروکریسی اور اشرافیہ کو سرکاری خزانے سے دی جانے والی بے تحاشا مراعات و سہولیات کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔ جب تک یہ فیصلہ نہیں کیا جاتا تب تک معیشت کے مستحکم ہونے کے آثار دکھائی نہیں دیں گے۔