• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کی تاریخ کا دھارا بدلنے والی عظیم شخصیت قائداعظم محمد علی جناح قیام پاکستان کے اگلے برس ہی 11؍ستمبر1948ء کوخالق ِ حقیقی سے جاملے۔ آپ کو کراچی کے وسط میں ایک اونچی پہاڑی پر سپردخاک کیا گیا۔ 1948ء سے 1960ء تک ایک عام قبر کی طرح رہی۔ لیکن اس پر ایک شامیانے کی مدد سے سایہ کیا گیا اور اس کے چاروں اطراف چار پولیس اہلکاروں کو تعینات کیاگیا۔

1957 کے اوائل میں حکومت پاکستان نے اس مقصد کے لیے 61 ایکڑ زمین مختص کی۔ اسی سال کے وسط میں قائد اعظم میموریل کی سینٹرل کمیٹی کے ایما پر انٹرنیشنل یونین آف آرکیٹکٹس (آئی یو اے) نے مزار کی ڈیزائننگ کے لیے ایک بین الاقوامی مقابلے کا اہتمام کیا۔ اس مقابلے میں 31دسمبر 1957 تک ڈیزائن قبول کیے گئے۔ اس مقابلے میں 17ممالک کے 57نامور آرکیٹکٹس نے حصہ لیا۔

ان آرکیٹکٹس کے ڈیزائن کا جائزہ لینے کے لیے ایک بین الاقوامی جیوری بھی قائم کی گئی۔ اس جیوری کے چیئرمین پاکستان کے وزیر اعظم فیروز خان نون تھے۔تاہم انہوں نے مصروفیات کی بنا پر اس کی صدارت کے لیے وزیر خزانہ سید امجد علی کو نامزد کیا۔ جیوری کے دیگر ارکان میں دنیا کے بعض معروف ترین آرکیٹکٹس شامل تھے۔

8 فروری1958کو کراچی میں اس جیوری کے اجلاس شروع ہوئے اور 15 فروری 1958کو جیوری کے فیصلے کے مطابق لندن کے ایک تعمیراتی ادارے ریگلان اسکوائر اینڈ پارٹنرز کے ڈیزائن کو اول قرار دیا گیا۔ مقابلے کی انعامی رقم25ہزار روپے بھی اس ادارے کو دی گئی۔ ریگلان اسکوائر اینڈ پارٹنرز کا مجوزہ ڈیزائن جدید فن تعمیر کا شاہ کار تھا مگر بہت جلد اخبارات میں اس ڈیزائن کے خلاف مراسلات شائع ہونے لگے۔ 

ان میں کہا گیا تھا کہ یہ ڈیزائن اسلامی فن تعمیر سے مطابقت نہیں رکھتا اور قائد کی شخصیت کے شایان شان نہیں ہے۔محترمہ فاطمہ جناح نے ان مراسلات کا سختی سے نوٹس لیا انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ قائد اعظم کے مزار کا ڈیزائن بمبئی میں مقیم آرکیٹکٹ یحییٰ قاسم مرچنٹ سے بنوایا جائے۔

حکومت پاکستان نے مادر ملت کی خواہش کا احترام کیا اور آرکیٹکٹ یحییٰ مرچنٹ سے رابطہ کر کے انہیں قائد کے مزار کانقشہ بنانے کے لیے کہاجوقائد کے کنسلٹنگ آرکیٹکٹ بھی رہ چکے تھے۔یحییٰ مرچنٹ نے فوری طور پر اس درخواست کی تعمیل کی اورقائد اعظم کی شخصیت، کردار اور وقار کو ذہن میں رکھتے ہوئے ان کے شایان شان ایک مقبرے کا ڈیزائن تیار کیا جسے محترمہ فاطمہ جناح نے بھی پسند کیا۔ 12 دسمبر 1959 کو حکومت پاکستان نے بھی یہ ڈیزائن منظور کر لیا۔کہا جاتا ہے کہ یہ ڈیزائن دہلی میں غیاث الدین تغلق اور بخارا (ازبکستان) میں اسماعیل سامانی کے مزار کے ڈیزائن سے شدید متاثر ہے۔

یحییٰ مرچنٹ
یحییٰ مرچنٹ

یحییٰ مرچنٹ کے ڈیزائن کی منظوری کے بعد8 فروری 1960 کو مزار کی تعمیر کا کام شروع ہوا اور7مارچ 1961کو بنیادوں کی کھدائی شروع ہوئی۔ مقبرے کی بنیادوں میں پاکستان کے پرانے سکے اور قرارداد پاکستان 1940 کی دستاویزات بھی دفن کی گئیں۔

31 جولائی 1960کو ایک باوقار تقریب منعقد کی گئی جس میں صدر مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان نے مزار کا باقاعدہ سنگ بنیاد رکھا۔ اس موقع پر مزار پر سنگ مرمر کی ایک تختی بھی نصب کی گئی۔

منظورشدہ نقشے کے مطابق مزار کا کل رقبہ 61 ایکڑ اور مزار کی عمارت کی کل اونچائی 120فیٹ رکھی گئی۔ قائداعظم محمد علی جناح کی قبر کو محفوظ رکھنے کیلئے زیریں اور بالائی، دو الگ جگہوں پر اور دو مختلف حصوں میں بنایا جانا مقصود تھا۔ 

اس کے علاوہ مزار کو چاردیواری کی شکل میں ڈھالے جانے، ہر دیوار میں ایک اونچا دروازہ مزید تین ذیلی دروازوں میں تقسیم ہونے، مزار کا سب سے اوپری حصہ ایک گنبد کی شکل میں ہونے کا منصوبہ بنایا گیا۔ مزار کے احاطے میں عجائب گھر اور تحریک آزادی میں شامل چند اہم سیاسی رہنمائوں کی قبروں کی جگہ بھی مخصوص کی گئی۔

مزار کی تعمیر شروع ہوئی تو سب سے پہلے قبر پکی کی گئی اور اطراف کی دیواروں کو مورش طرزکی سفید سنگ مرمر ی کمانوں، تانبے کی باڑوں اور اسلامی طرز سے بنایا گیا۔قائداعظم کی اصل قبر زیرِ زمین واقع ہے اور اس کے گرد اسٹیل کی جالیاں اسلامی فن ِ تعمیر کے لحاظ سے نصب کی گئی ہیں۔ جن کی اونچائی 2فٹ ہے، لیکن اس قبر تک صرف مخصوص لوگوں کو ہی جانے کی اجازت ہے۔

1968ء میں اوپر والی قبر تعمیر کی گئی۔جو اصل قبر سے 14فیٹ اوپر واقع ہے مزار کے گنبد کی اونچائی 120 فیٹ ہے۔ قبر کے اطراف اندرونی جالیاں چاندی کی بنائی گئی ہیں۔ جن کی اونچائی تقریباً ڈیڑھ فٹ ہے اور ان کا وزن 18000تولہ ہے۔ بیرونی جالیاں اسٹیل کی بنائی گئی ہیں۔ جن کی اونچائی تقریباً 4فٹ ہے۔

1969ء میں اطراف کی دیواریں تعمیر ہوگئیں۔ جن کی تعمیر میں سفید سنگ مرمر کے ساتھ تانبے کو اسلامک آرکیٹکچرل ڈیزائن کی شکل میں استعمال کیا گیا ہے جبکہ مزار کی زمین گہرے سرمئی سنگ مرمر کے ٹائلز سے بنائی گئی ہے اور دیواروں کے بیرونی حصوں پر سنگ مرمر کے ٹکڑوں کو اس طرح جوڑا گیا ہے۔ جیسے اینٹوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔

1970ء میں مزار کے گنبد کی تعمیر کا کام شروع کیاگیا۔ اس گنبد کی چوڑائی 70فٹ ہے اور اس کے چاروں اطراف تین، تین کھڑکیاں بنائی گئی ہیں۔ جن کو سنگ مرمر، پیتل اور لکڑی سے اسلامی فنِ تعمیر کے انداز میں بنایا گیا ہے اور مضبوط شیشے نصب کئے گئے ہیں۔ قبر کے عین اوپر 1972ء میں ایک فانوس نصب کیاگیا۔ جوکہ چین کے مسلمانوں کی طرف سے پاکستان کو تحفہ میں دیاگیا تھا۔ اس فانوس کی لمبائی 80فٹ اور وزن 16من ہے جبکہ یہ خالص تانبے سے بنا ہواہے۔ 

فانوس میں مختلف رنگ کے شیشے اور مختلف رنگ کی روشنیاں لگائی گئی ہیں جو مزار کے اندرونی حصے کی خوبصورتی میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔اوپر والی قبرکے اطراف ایک طویل پلیٹ فارم موجود ہے۔ جس کا رقبہ 52ایکڑ ہے۔ یہ پلیٹ فارم کنکریٹ سے بھرکر مضبوط بنایاگیا ہے اور تین اطراف سے سیڑھیوں کے ذریعے اس کو پارک سے منسلک کیاگیا ہے۔ مزار کا اصل حصہ، جہاں قبر واقع ہے تقریباً 73فٹ 4انچ چوڑا اور 126فٹ 3انچ اونچا ہے۔ مزار کی ہر دیوار میں انتہائی اونچے محرابی دروازے نصب ہیں۔ 

ہر دروازے کا وزن 80من اور اونچائی مزارکی اصل لمبائی کی تقریباً نصف ہے۔ ان پر سنہری بھورے رنگ کی تانبے کی جالیاں اسلامی فنِ تعمیرکے انداز میں ہلکے لال رنگ کے شیشوں کے ساتھ نصب کی گئی ہیں۔ ہر دروازے تین چھوٹے لکڑی کے دروازوں پر مشتمل ہے اور لکڑی کا ہر دروازہ دائیں، بائیں طرف اندر کی جانب کھلتا ہے۔

1973ء میں اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں مزار کے اندر اور باہر پاکستان نیوی کے جوانوں کو تعینات کیاگیا۔ جو مسلسل نو برس تک اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔ بعدازاں جنرل ضیاء الحق کی حکومت میں اس ذمہ داری کو تینوں افواج میں برابر برابر تقسیم کر دیا گیا۔ یعنی چار چار ماہ بعد ہر فوج اپنے فرائض انجام دیتی ہیں اور یہی سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ ہر دو گھنٹے بعد فوج کے اس مسلح نوجوان پریڈ کرتے ہوئے آتے ہیں اور پھر دس دوسرے مسلح فوجی نوجوان ان کی جگہ تبدیل ہو جاتے ہیں۔

مزار کے سامنے والے تین اطراف سیڑھیوں کے ساتھ حالیہ بنائے جانے والے باغ سے منسلک ہیں۔ جہاں مخصوص فاصلوں پر 15پانی کے فوارے نصب کئے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف رنگ و اقسام کے پھولوں کے ساتھ کھجور کے درخت لگا کر باغ کی خوبصورتی میں اضافہ کیاگیا ہے۔ مزار کی پچھلی طرف یعنی شمال میں تحریک آزادی کے چند اہم رہنمائوں کی قبریں موجود ہیں۔ جو آزادی کے بعد ملک کی حکومت کا حصہ بنے۔ ان میں قائد ملت لیاقت علی خان، بیگم رعنا لیاقت علی خان، سردار عبدالرب نشتر، مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح اور نورالامین شامل ہیں۔

مزار کے پچھلی طرف یعنی جنوب میں میوزم کو اس طرح سے تعمیر کیاگیا ہے کہ وہاں سے ہوا کا گزر نہ ہو سکے۔ جبکہ اس کو ٹھنڈا رکھنے کیلئے ایئرکنڈیشنرز بھی نصب کئے گئے ہیں۔ یہاں قائداعظم محمد علی جناح سے وابستہ بہت ساری چیزیں رکھی گئی ہیں۔ جن میں ان کے خطوط، والیٹ، کپڑے، بیڈ روم سیٹ، کتابوں کا شیلف، جوتے، ڈائننگ ٹیبل، گھرکے شو پیس اور دو گاڑیاں موجود ہیں۔

مزار کے اطراف میں موجود پارک جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں تعمیر کیاگیا۔ جس کو باغ ِ قائداعظم کا نام دیا گیا۔ یہ باغ ِ شاہراہ قائدین کی جانب یعنی مشرق کی طرف سے 1645 فٹ تک پھیلاہوا ہے جبکہ اس کے بالکل مخالف سمت یعنی ایم اے جناح روڈ کی طرف 1575فٹ تک پھیلاہواہے۔

مزار کے احاطے میں آنے کے پانچ دروازے ہیں ۔ جن میں تین عام افراد کیلئے اور ایک خاص افراد کیلئے مخصوص کیا گیا ہے۔ جبکہ ایک دروازہ عارضی طور پر بند ہے۔