میرا شمار قیدی نمبر 804کے بدترین ناقدین میں کیا جا سکتا ہے، میں ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار نہیں ،ان کے طرز سیاست کو پسند نہیں کرتا، انہیں قوم کا مسیحا یا نجات دہندہ تسلیم نہیں کرتا اور اپنے ان خیالات اور سوچ کو کبھی مخفی نہیں رکھا ،برملا اظہار کرتا رہتا ہوں۔ مگر آج مجھے ایک اعتراف کرنا ہے ،قیدی نمبر 804نے مجھ جیسے تجزیہ نگاروں اور نقادوں کو ہی نہیں اپنے سیاسی مخالفین کو بھی غلط ثابت کر دیا ہے۔ جناب آصف زرداری صاحب بتایا کرتے تھے کہ عمران خان چھپکلی سے ڈرتے ہیں۔ خواجہ آصف اور رانا ثنااللہ کا دعویٰ تھا کہ جب جیل میں انہیں مخصوص دوائی نہیں ملے گی تو یہ ٹوٹ جائیں گے ،چند ہفتے بھی جیل میں نہیں گزار سکیں گے۔ذاتی طور پر میرا بھی یہی خیال تھا کہ شہزادوں کی سی زندگی بسر کرنے والے عمران خان اسیری کے ایام ثابت قدمی سے نہیں گزار سکیں گے۔ مگر اس نے یہ سب تخمینے اور اندازے غلط ثابت کر دیئے۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف جنہیں سویلین بالادستی کا سرخیل سمجھا جاتا ہے انہوں نے 5ماہ جیل میں گزارے تھے اور عمران خان اب تک 13ماہ کی قید کاٹ چکے ہیں ۔میاں نوازشریف کو 6جولائی 2018ء کو ایون فیلڈ ریفرنس میں 10سال قید کی سزا سنائی گئی، انہوں نے 12اور 13اکتوبر کی درمیانی شب لاہور ایئر پورٹ پر گرفتاری دی، 11ستمبر 2018ء کو بیگم کلثوم نواز کی رحلت پر انہیں پیرول پر رہائی ملی جبکہ 18ستمبر 2018ء کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کی طرف سے سنائی گئی سزا معطل کرکے انہیں ضمانت پر رہا کر دیا۔ اگر پیرول پر رہائی کو شمار نہ بھی کیا جائے تو مجموعی طور پر وہ 66دن جیل میں رہے۔ 24دسمبر2018ء کو احتساب عدالت نے نوازشریف کو العزیزیہ ریفرنس میں 7سال قید کی سزا سنا دی تو وہ پھر گرفتار ہو گئے اور 26مارچ 2019ء کو عدالت نے انہیں علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دیدی یعنی دوسری بار ان کی اسیری کا دورانیہ 90دن پر محیط رہا اور مجموعی طور پر میاں نواز شریف نے156دن جیل میں گزارے۔اگر ہم سابق وزیراعظم عمران خان کی بات کریں تو انہیں 5اگست 2023ء کو لاہور میں انکی رہائش گاہ زمان پارک سے گرفتار کر کے اٹک جیل منتقل کیا گیا اور پھر اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ تب سے اب تک وہ اسی جیل میں قیدی نمبر 804کے طور پر موجود ہیں۔ انہیں جیل میں 400دن ہوچکے ہیں اور وہ گزشتہ 13ماہ کے دوران ایک بار بھی بیمار نہیں ہوئے، کبھی ان کے پلیٹ لیٹس کم نہیں ہوئے، حالت خراب ہونے پر اسپتال منتقل نہیں کیا گیا۔ اب آپ کہیں گے کہ عمران خان کو جیل میں سب سہولتیں میسر ہیں، انہیں باورچی دیا گیا ہے،ورزش کے لئے راہداری اور ایکسر سائز مشین فراہم کی گئی ہے،وہ ہر روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہیں، اپنے وکلاء اور پارٹی رہنمائوں سے ملاقاتیں کرتے ہیں، بیرون ملک اخبارات میں ان کے انٹرویوز شائع ہوتے ہیں، بھلا یہ بھی کوئی قید ہے۔ ایک طرف سیاسی مخالفین کا یہ بیانیہ ہے تو دوسری طرف قیدی نمبر 804کا دعویٰ ہے کہ انہیں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے، کبھی وہ یہ مضحکہ خیز بات کرتے ہیں کہ انہیں سزائے موت کے قیدیوں کیلئے مخصوص سیل میں رکھا گیا ہے، وہ بہت مشکل قید کاٹ رہے ہیں۔ میری دانست میں یہ دونوں بیانئے مبالغہ آرائی اور غیر حقیقت پسندی پر مبنی ہیں۔ عمران خان کو شاید یہ بات معلوم نہیں کہ جیل میں عام قیدی اور بالخصوص سزائے موت کے منتظر قیدی کس طرح کی صعوبتیں برداشت کرتے ہیں۔ انہیں تو اپنی کوٹھڑی میں مرضی سے بلب جلانے کی اجازت نہیں ہوتی، شلوار میں ازار بند استعمال نہیں کرنے دیا جاتا کہ کہیں خود کشی نہ کرلیں ۔جاوید ہاشمی جو آج کل آپ کا مقدمہ لڑ رہے ہیں، موقع ملے تو کبھی ان سے پوچھ لیں کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جب وہ اسی اڈیالہ جیل میں قید تھے تو انہوں نے ابتلا و آزمائش کا کیسا زمانہ دیکھا۔
دوسری طرف سیاسی مخالفین کی طرف سے جن سہولتوں کا ذکر کیا جاتا ہے وہ اس سطح کے تمام سیاسی قیدیوں کو حاصل ہوتی ہیں۔بلکہ جب میاں نوازشریف پابند سلاسل تھے تو انہیں جیل میں ایئر کنڈیشنر بھی فراہم کیا گیا تھا لیکن عمران خان کو صرف روم کولر کی سہولت دی گئی۔ حبس کے موسم میں جب گھروں میں پنکھے کے نیچے بیٹھ کر پسینہ آ رہا ہوتا ہے ،تب کیا حالت ہوتی ہے اور پھر جو شخص قید ہو، اس کی کیفیت کا تو ہرگز اندازہ نہیں کیا جا سکتا۔ سیاسی مخالفین میں محض رانا ثنا اللہ نے کشادہ دلی اور اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے چند روز پہلے یہ اعتراف کیا تھا کہ عمران خان نے ان کے تمام اندازوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران انہوں نے کہا کہ عمران خان نے جیل کاٹنے میں مزاحمت دکھائی ہے اور وہ کچھ کر دکھایا ہے جس کی انہیں توقع نہیں تھی۔ ہاں البتہ اس طویل اسیری کے ان کے سیاسی شعور پرکیا اثرات مرتب ہوئے ہیں؟ کیا انہوں نے جیل میں گزارے گئے شب و روز غور و فکر میں گزارے؟ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کا اِدراک کیا ؟فاشزم پر مبنی اپنے رویوں اور انداز سیاست پر نظر ثانی کی؟ اب جب وہ جیل سے باہر آئیں گے تو ایک بدلے ہوئے سیاستدان ہوں گے؟ ان کے طرز عمل ہی نہیں طرز تخاطب اور انداز بیاں میں بھی تبدیلی آئے گی؟ وہ مقبولیت کی لہر پر سوار ہونے اور مقتدر حلقوں کا آلہ کار بننے کے بجائے عوام کی طاقت سے اقتدار میں آنے کو ترجیح دیں گے یا پھر وہی کنٹینر والی سیاست میں مشغول ہو جائیں گے؟ انہوں نے سیاسی ارتقا کا سفر طے کیا یا نہیں؟ اس حوالے سے فی الحال کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ تاہم قیدی نمبر 804نے استقامت اور حوصلے سے جیل کاٹی، اس بات کا اعتراف کھلے دل سے کرنا چاہئے۔