جناب سراج الحق جماعت اسلامی پاکستان کے پانچویں امیر منتخب ہو گئے۔ جماعت کے انتخابات اپنی نوعیت کے اعتبار سے بہت منفرد ہیں۔اتنے پر امن، خاموش، شفاف اور باقاعدگی سے منعقد ہونے والے انتخابات داد کے مستحق ہیں۔
30مارچ 2014ء کو جماعت اسلامی پاکستان کے ووٹ کا حق رکھنے والے 31,200ارکان میں سے 25,507ارکان نے خفیہ رائے دہی سے اپنے پانچویں امیر کا انتخاب کیا۔ جماعت اسلامی میں مرکزی امیر کا انتخاب ویٹی کن کے پوپ کیطرح کیا جاتا ہے۔ ارکان اپنے میں سے اپنے علاوہ کسی ایک کے حق میں رائے دے سکتے ہیں ۔ ارکان کی سہولت اور رہنمائی کے لئے مرکزی شوریٰ تین نام تجویز کرتی ہے ۔ اور ارکان بالعموم انہی میں سے کسی ایک کے حق میں اپنی رائے دیتے ہیں۔
نہ کوئی امیدوار، نا مقابلہ،نہ مہم۔ البتہ انتخابی عمل کے آغاز میں بعض ارکان اپنے پسندیدہ قائد کی محبت میں ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھتے ہیں اور اپنی پسند کا کھلم کھلا اظہار کر دیتے ہیں جسے بالعموم نا پسند کیا جاتا ہے۔ نتیجتاً یہ جوش و خروش بھی چند ہی روز میں دم توڑ دیتا ہے اور نہایت خاموش اور باوقار طریقے پر رائے دہی کا عمل انجام کو پہنچتا ہے۔ منتخب امیر احساس فرض کے بوجھ تلے دبا رہتا ہے۔ تمام ارکان اس کو اخلاص اور استقامت کی دعا دیتے ہیں۔
مولانا مودودیؒ کا علمی تبحر، میاں طفیل محمدکا تدیّن ، قاضی حسین احمد کا تحرک، سید منور حسن کا زہد و توکل اور جناب سراج الحق کا فقر و استقلال ، اپنی مثال آپ ہیں۔ کوئی اور سیاسی یا دینی جماعت ایسی عزیم المرتبت قیادت کے تسلسل کا صرف خواب ہی دیکھ سکتی ہے۔ مزید برآںان میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کا رشتہ دار ہے نا وارث۔ مولانا مودودیؒ نے موروثی قیادت کی جڑ کاٹ دی ہے۔ ان سب میں قدرِ مشترک صرف ایک ہے، اللہ پر سچا ایمان، اقامت دین کے نصب العین سے سچی وابستگی اور دستور جماعت کی خوشدلانہ پابندی ۔ انشاء اللہ صالح قیادت کے اسی تواتر سے وہ جماعت تیار ہو گی جو 1500برس کے زوالِ امت کو عروج سے ہمکنار کر دے گی۔
1972میں مولانا مودودی ؒ ، 1988میں میاں طفیل محمد اور 2009میں قاضی حسین احمدؒ نے امارت سے معذوری کا اظہار کیا اور شوریٰ نے ان کی معذرت قبول کر کے ان کا نام مجوزہ تین ناموں سے نکال دیا۔ یوں ارکان کو ایک گائیڈ لائن مل گئی۔ البتہ اس مرتبہ صورت حال تھوڑی مختلف رہی۔ سید منور حسن صاحب نے شوریٰ کے سامنے آئندہ ذمہ داریوں سے معذوری ظاہر کی جس پر شوریٰ نے کوئی بحث نہ کی اور مجوزہ تین ناموں میں منور صاحب کا نام بھی شامل رکھا۔ انہوں نے منصورہ میں ذمہ داران کی ایک نشست میں کہا کہ وہ ارکان جماعت کے نام ایک خط لکھ کر اپنی معذرت بھجوا نا چاہتے ہیں،لیکن نشست کے شرکاء نے انہیں ایسا کرنے سے منع کر دیا اور معاملہ ارکان کی رائے پر چھوڑ دیا۔ کاش منور صاحب ان کا مشورہ قبول نہ کرتے اور ارکان کو گومگو کی صورت حال اور معذرت کے رد و قبول کی بحث سے نکال لیتے۔
جناب عبدالحفیظ احمد، ناظم انتخاب نے نتیجہ کا اعلان کیا۔ فوراً بعد جیو پر نجم سیٹھی صاحب کا پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ وہ اکثر نہایت معقول بات کرتے ہیں لیکن افسوس ہوا کہ انہوں نے اپنی چند منٹ کی گفتگو میں سراج الحق صاحب کو بار بار مولوی سراج الحق اور مولوی صاحب کہہ کر پکارا ۔ کیا وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو مسز بے نظیر زرداری کہہ کر پکاریں گے؟ میں سمجھتا ہوںکہ سیٹھی صاحب کو اپنے آئندہ پروگرام میں اس کی تصحیح کرنی چاہیے کہ یہ بات ان کے شایانِ شان نہیں۔
بعض تجزیہ کاروں نے کہا کہ لابنگ ہوئی ہے۔ میرے خیال میں ان کی رائے درست نہیں۔ معمولی کھسر پھسر کا امکان رد نہیں کیا جا سکتااس سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ ابھی تک جماعت کا نظام اسقدر مضبوط ہے کہ منظم لابنگ یا مہم بازیناممکن ہے ۔ عام طور پر اکثر اہل لوگ ذمہ داریوں سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں اور خواہشِ اقتدار اور حبِ جاہ کو اپنے لئے سمِ قاتل سمجھتے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ ’’سراج الحق صاحب نے مولانا کے ہزاروں صفحات پر پھیلے ہوئے لٹریچر کو اپنے ذہن و قلب میں خوب اتار رکھا ہے‘‘۔ یہ چیز ان کی ولولہ انگیز تقریروں میں بھی ظاہر ہوتی ہے۔ جماعت میں سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگ ایسے ہیں جن کی امانت اور دیانت پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کیا جا سکتا ہے۔ اور یقینا سراج الحق ان کے سرخیل ہیں۔
جماعت کی اپنی سوچی سمجھی پالیسی ہے اسی کو لے کر قاضی حسین احمد صاحب چلے، سیدمنور حسن نے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی اورنہ سراج الحق کے بس میں ہے کہ اس کوبہت زیادہ بدل سکیں۔ ہاں البتہ بقول شاعر
سیف انداز بیاں رنگ بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
سراج الحق صاحب کے سامنے کئی چیلنجز ہیں۔72سالہ جماعت کو اسکی گراں بار روایات سے نکالنا۔ علم و دانش جماعت کی متاع گمشدہ ہے۔ اس کا حصول دوبارہ ممکن بنانا۔ ان تمام باتوں کو چھوڑ دینا جن کا غیر مفید ہونا ثابت ہو چکا ہے اور نئی حکمتِ عملی وضع کرنا۔فریضہ اقامت دین کا شعور و ادراک رکھنے والے تمام گروہوں کو قریب لانا۔ترکی، مصر اور اسی طرح کے دوسرے ممالک میں ہونے والی تبدیلیوں کا گہرا مطالعہ کروانا۔ فوج، امریکہ اور طالبان کے ساتھ اپنی Equationپر نظر ثانی کرنا ۔ طلبہ و طالبات کی تنظیموں کی کارکردگی ، رجحانات کا گہرا تجزیہ کروانا ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ خدا انہیں توفیق اور ہمت دے کہ وہ اس عظیم بار ِ امانت کو کامیابی سے اٹھا پائیں اور اس کا حق ادا کرسکیں۔ ایک عہد تھا جوبیت گیا۔ وہ لوگ رخصت ہوئے جنھوں نے مولانا مودودی ؒ کی آنکھیں دیکھی تھیں۔ خدا کرے کہ جماعت میں خیر اسی طرح غالب رہے جسطرح یہ آج تک غالب رہی ہے۔ اور کم ظرف طالبانِ دنیا پر اسکی بے ثباتی کھل کر عیاں ہو جائے۔آمین!
پریس میں کئی باتیں محض ظن و تخمین کی بنیاد پر آئی ہیں۔ کسی کو نہیں معلوم کہ مختلف قائدین کو کتنے ووٹ ملے۔ یہ بھی غلط ہے کہ کوئی مقابلہ ہوا۔ کوئی شادیانہ بجا نہ صفِ ماتم بچھی۔
ارکانِ جماعت کی عظیم اکثریت نہایت سنجیدہ ، باوقار اور حقیقت پسند خواتین و حضرات پر مشتمل ہے۔
پریس کے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سید منور حسن مختلف وضع کے تھے اور سراج الحق وضع قاضی پر چلیں گے۔ یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ منور حسن 16برس تک مسلسل قاضی صاحب کے سیکرٹری جنرل رہے اور انہوں نے پالیسی یا طرزِ امارت میں کوئی نئی اختراع نہیں ڈالی اپنے ’شیخین‘ ہی کی سیرت پر عمل پیرا رہے ہیں۔