اللّٰہ تعالیٰ نے پاکستان کو جو شاندارمحل وقوع اور بیش قیمت قدرتی وسائل عطا کئے ہیں،ان میں تقریباایک ہزار میل طویل ساحل سمندر بھی ہے جس میں سے 770میل صرف بلوچستان کی حد ود میں واقع ہے۔گوادر ابتدا میں ماہی گیروں کی بستی تھی۔پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک)کی بدولت اب یہ ایک عظیم بندرگاہ کی شکل اختیار کرچکا ہے،جو ابھی تک بین الاقوامی تجارت کیلئے اپنی وسیع گنجائش کے باوجود فعال نہیں ہوسکی۔جمعرات کو وفاقی کابینہ نے وزارت بحری امور کی سفارش پر تمام سرکاری اداروں کو گندم،چینی اور کھاد سمیت اپنی50فیصد درآمدات گوادر پورٹ کے ذریعے اندرون ملک پہنچانے کا انتظام کرنے کی منظوری دی اور یہ ہدایت بھی کی کہ مستقبل میں اس بندرگاہ سے برآمدات کی شرح بھی بڑھائی جائے۔ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی جو گوادر سے درآمدات وبرآمدات کی سہ ماہی رپورٹ کابینہ کو پیش کرے گی۔گوادر بلوچستان کا علاقہ تھا جو قیام پاکستان کے وقت خلیجی ریاست اومان کے پاس تھا ۔1958ءمیں اس وقت کے وزیراعظم ملک فیروز خان نون نے اسے خرید کر پاکستان میں شامل کیا۔عرصہ دراز تک یہ شہر ماہی گیروں کا ذریعہ معاش بنا رہا ،مگر اس میں ایک بڑی بندرگاہ بننے کی صلاحیت موجود تھی۔سی پیک کے تحت اس پر کام شروع ہوا تو آج یہ بین الاقوامی تجارت ہی نہیں،اسٹریٹیجک بندرگاہ کے طور پر بھی دنیا بھر کی نظروں میں ہے۔یہ بندرگاہ پوری طرح فعال ہوجائے گی تو اس سے بلوچستان کے لوگوں کو روزگار ملے گااور ملکی معیشت بھی مستحکم ہوگی،کراچی پورٹ پر بھی بوجھ کم ہوگا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ گوادر کی مقامی آبادی کو اس کے ثمرات سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کے مواقع مہیا کیے جائیں۔یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ گوادر پاکستان کا معاشی مستقبل ہے،جسے پوری صلاحیت کے مطابق فعال کرنا چاہئے۔