• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بارش کی تین خاص اقسام ہوتی ہیں جن میں Convectional بارش، اور وگرافک بارش (جس کو بعض اوقات امدادی بارش بھی کہا جاتا ہے) اور طوفانی بارش شامل ہیں۔ ان میں خطرناک ترین طوفانی بارش کو تصور کیا جاتا ہے، جس کے برسنے سے کئی طرح کے نقصانات ہوتے ہیں ،پلاننگ نہ ہونے کے باعث بروقت کئی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ معاشی طور پر بھی ملک تنزلی کا شکار ہوتا ہے، تاہم مون سون اور طوفانی بارشیں بنیادی طور پر مختلف ہوتی ہیں، مون سون کی بارشیں موسمی تبدیلی کے نتیجے میں زمین اور سمندر کے تفریق گرم ہونے کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ 

جو جنوبی ایشیا جیسے بڑے خطوں خصوصاً پاکستان، بھارت، بنگلا دیش میں مسلسل، معتدل بارشوں اور مسلسل ہواؤں کے ساتھ کئی مہینوں تک جاری رہتی ہیں ۔ اِس کے برعکس طوفانی بارشیں۔طوفانوں یا سمندر کے گرم پانیوں پر بننے والے ٹائفوں کے باعث برستی ہیں جو کہ چند گھنٹوں سے کچھ دونوں تک انتہائی شدید سے برستی ہیں اور مقامی علاقوں، زرعی اراضی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہیں۔ اس کے ساتھ تیز، اکثر تباہ کن ہوائیں بھی چلتی ہیں اور سیلاب کے امکانات کافی قوی ہوتے ہیں۔ 

ایشیائی خطہ جہاں موسمِ گرمااپنی پوری آب و تاب سے آتا ہے اور اس ناقابل برداشت گرمی کی شدت کو صرف مون سون کی بارشیں کی کم کرسکتی ہیں اور یہ ہی مون سون ایشیائی خطے میں گرمی کی کم کرنے کا باعث بنتا ہے۔جنوب مغربی علاقہ جات میں مون سون کا سسٹم تقریباً جون تا ستمبر تک عموماً سارے پاکستان میں جاری رہتا ہے۔ جہاں یہ باران رحمت بنی و نوع انسان کے لیےکئی طریقوں سے سود مند ہے۔ وہاں کئی طریقوں سے مہلک بھی ہے۔

تاہم، ان مون سون کی راعنائیوں میں زرعی معیشت بلکہ ماحولیاتی توازن بہت اہم ہے۔ یہ کھیتوں کی پانی کا بہترین ذریعہ ہیں ،جس سے فصلوں کی پھلنے پھولنے میں مدد ملتی ہے۔ چاول، کپاس،گنا اور دیگر کئی اہم فصلیں اس موسم میں بہتر پروان چڑھتی ہیں۔ تاہم ،پانی کی مقدار زائد نہ ہو تو یہ زیر زمین ذخیرہ ہو کر زیر زمین ذرائع کو بڑھاتی ہیں اور زمین سے زائد کیمیائی اور مضر اجزاء کو جذب کر کےاس کو کاشت کے قابل قبول بناتی ہے ۔مون سون جنگلات، نباتیات کی نشوونما میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔

یہ بارشیں خشک سالی کو کم کرتی ہیں اور ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے میں بہت مدد گار ہیں۔ یہ نہ صرف درجۂ حرارت کو کم کرتی ہیں بلکہ انسانی صحت پر بھی خوشگوار اثرات مرتب کرتی ہے ۔ یہ کہنا بجا ہوگا کہ بارشیں ہماری زندگی اور معیشت میں کس قدر اہم ہیں ۔ جہاں یہ ابر باران رحمت ہے وہاں یہ کبھی کبھار زحمت کا بھی باعث ہوتا ہے ،جس کی وجہ سے سیلاب، زمینی رقبے میں کٹاؤ کے ساتھ ساتھ لینڈ سلائنڈنگ جیسے گھمبیر مسائل بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ 

ان تمام قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ یہ کئی طرح کی بیماریوں کا باعث بنتی ہیں، جس کی اہم اور بنیادی وجہ مختلف قسم کے حشرات کی آمد اور افزائش نسل ہے، جس کی تعداد موسم برسات میں بڑھ کر کئی گنا زائد ہوجاتی ہے۔ عموماً بارشیں نمی کی وجہ سے حشرات کے اُبھرنے اور ان کی افزائش کے لیے آئیڈیل ماحول پیدا کرتی ہیں خاص کر کئی طرح کے حشرات جو کہ نموکے ابتدائی مرحلے میں ہوتے ہیں۔ مون سون کی بارشوں کی دستیابی کے بعد یک دم (Hatch) ہوکر لاروا فارم میں باہر نکل آتے ہیں اور نباتیاتی کی فروانی ان کو بہتر انداز میں پھیلنے اور پھولنے میں مدد فراہم کرتی ہے۔ 

اس طرح کئی طرح کے حشرات جن میں مچھر اور پتنگے شامل ہیں ،یہ اپنے انڈے کھڑے پانی میں دیتے ہیں اور بارشیں ان کے لیے متعدد افزائش کی جگہیں مہیا کرتی ہیں اور ان کی آبادی اور یلغار میں یک دم اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ مسلسل پانی کی فراہمی کئی حشرات کے جسمانی عمل کو برقرار رکھنے میں بہت موزوں ہے۔

برسات چونکہ پودوں کے لیے بہت موزوں ہے اور کئی طرح کے پودے صرف بارش میں ہی پروان چڑھتے ہیں یا اپنی نشوونما کو تیز کرتے اور اس طرح کئی طرح کے حشرات جن کی پناہ گاہیں یا افزائش کے مسکن پودے ہیں ،یہ پودے بھی ان کی آبادی کو بڑھانے میں قابل قدر خدمات سرانجام دیتے ہیں۔

برسات کئی حشرات کے میٹا بولک ایٹ کو نہ صرف بڑھاتی ہے بلکہ ان کو (Dehydration) خشکی سے بھی بچاکر ان کوپروان پڑھاتی ہے۔ کئی طرح کے حشرات جو عموماً مٹی میں اپنا مسکن بناتے ہیں۔ ان زیر زمین مسکن بنانے والوں جاندروں میں (Schizo doctylus) آبی جاندار، دیمک اور کئی دوسرے جاندار حشرات شامل ہیں ،یہ زیر زمین اپنے آشیانے بناکر اپنی زندگی کے باقی مرحلے آسانی اور محفوظ طریقے سے گزارتے ہیں۔ اس طرح بارش انفرادی شکار میں بھی کمی کا باعث بنتی ہے۔ 

عموماً زیادہ کیڑوں کی موجودگی میں کمی ایک کیڑے کے شکار ہونے کا امکان کم ہوتا ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ یہ آپ کو ہر جگہ وافر تعداد میں نظر آتے ہیں، اس طرح کئی حشرات کے انڈے پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہہ کر ایک علاقے سے کسی دور دراز کے علاقوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ جہاں حالات کے موافق ہونے پر یہ نمو پا کر اُس علاقے میں ایک نئی تنوع( Diversity )کو جنم دیتے ہیں۔

برسات میں عموماً نسبتاً زیادہ تعد اد میں نظر آنے والے حشرات سے چیونٹیاں، کاکروچ، مکڑیاں اور پروانے پتنگے وغیرہ جو کہ زیر زمین کی نمی کا تناسب بڑھ جانے کے باعث اپنے آشیانوں سے باہر آجاتے ہیں۔ ان کی تلاش خشک جگہوں کے ساتھ غذائی ضرورت بھی ہوتی ہے ۔ تاہم، ان حشرات کے علاوہ فقادیہ اور غیرفقادیہ جانداروں میں مینڈک، Toads جو کہ عموماً نمی اور گیلے تاریک ماحول کو ترجیح دہتے ہیں، جس میں ان کی تولیدی نشوونما پروان چڑھتی ہے

مچھروں کی Breeding کے لیے تالاب اور جہاں کہیں پر بھی پانی ٹھہرا ہوا ہو وہ موزوں ترین جگہیں ہیں۔ مچھر اپنے انڈے تالاب پاپانی کے گڑھے میں دیتے ہیں اور بارش یہ موقع بآسانی فراہم کرتی ہے۔

اگر بارش کے بعد آپ کو گملوں یانالوں میں ٹھہرے ہوئے پانی کو قریب سے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ چھوٹے چھوٹے ننھے منے لڑکھڑاتے ہوئے لاروا صرف بالغ مچھر میں تبدیل ہونے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ لہٰذا جہاں پر بھی ٹھہرا ہوا پانی ہوگا، مچھروں کی افزائش اتنی ہی زیادہ ہوگی ۔ برسات میں دیمک کے حملے کو نظر انداز نہ کریں۔

آسٹریلیا کی تحقیقی ٹیم کی رپورٹ کے مطابق دیمک کے معائنے میں 12 ماہ سے زائد کا وقفہ نہ لیا جائے۔ اس طرح برسات میں زہریلے جانداروں میں سانپ، بچھو کے حملے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ یہ دونوں خطرناک ترین جاندار تصور کیے جاتے ہیں اور ان کا شدید حملے پر کاٹنا موت کا بھی باعث بن سکتا ہے۔ خصوصاً سانپ کا ان کے وافر مقدار میں دستیابی کی وجہ وہی ہے۔ برسات کا پانی بھر جانے کے باعث سانپ اور بچھو اپنے گھرہوں سے باہر نکل آتے ہیں۔

WHO کے مطابق کاکروچ کو الرجین کے ذریعہ ذمہ اور محرک کے طور پر خطرناک ترین تصور کیا جاتا ہے یہ پھیپھڑوں کی بیماریوں کو بڑھاتا ہے۔ اس طرح چوہوں کی وافر مقدار برسات کے دوران گھر کے مکینوں کی کئی طرح کی ان گنت پریشانیوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔ مثلاً کئی مہلک pathogenکے ہونے کے ساتھ ساتھ بجلی کے تاروں کی تقریباً برقی آلات کو نقصان پہنچانا جو کہ پھر شاٹ سرکٹ کا باعث بنتے ہیں ،جس سے کئی سنگین واقعات رونما ہوجاتے ہیں۔ 

مہلک جانداروں کی فہرست میں سینٹی ہیڈ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ،یہ عموماً برساتی موسم میں بکثرت نکلتے ہیں۔ عموماً آبی ذخائر کے قریب خاص کر باتھ روم، واشنگ ایریا اس کے خاص مسکن ہیں ۔یہ ایک زہریلی مخلوق ہے جو بارشوں کے ساتھ ہی نازل ہوتی ہے اور اس کازہر بہت ہی زہریلا اور خطرناک ترین تصور کیا جاتا ہے۔ اس کے کاٹنے سے شدید درد سوزش ، سرخ جلد، الرجی، قہ، سردرد کے ساتھ ساتھ دوسری کئی پیچیدگیاں شامل ہیں۔ 

لہٰذا بارش میں سیلاب زدہ علاقوں میں بلاوجہ گھومنے پھرنے سے احتیاط کی جائے۔ مچھر چونکہ ڈینگی، بخار، ملیریااور اسیفلائٹس کا موجب بنتے ہیں۔ WHO کے مطابق سالانہ برسات کے موسموں میں تقریباً 30فی صد شرح ڈینگی میں اضافہ رپورٹ ہوا ہے ۔لہٰذا ہنگامی اقدامات کی اشد ضرورت ہے اور ساتھ ساتھ ملیریا ، چکن گنیااور ٹائیفائیڈ جیسی مہلک اور جان لیوا بیماریاں بھی اس موسم میں عام ہوتی ہیں اور ان کا شدید انفکشن جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔ 

ان بیماریوں کے عام اثرات میں بخار، کمزوری اور جسم میں درد جیسی علامات قابل فکر ہونی چاہیے۔ مچھروں کی افزائش نسل کی نسل کشی اور ان جگہوں کی تلفی سے ہی صرف اس کاممکن اور پائیدار حل ہے۔ لہٰذا مچھروں کی Breeding کی جگہوں پر کیمیکلز اور insecticdes کا اسپرے کیا جائے اور ان تمام جانداروں سے جو کہ برسات کی آمد کے ساتھ ہی مختلف جگہوں پر نظر آتے ہیں۔

ان کے لئے ہمیں چوکس رہنا چاہیے، تاکہ بروقت حل نکال کر ان کی افزائش کو روکا جاسکے۔ ذیل میں کچھ احتیاطی تدابیر تجاویز کی جارہی ہیں۔ ان پر عمل پیرا ہوکر بھی حشرات سے بچائو کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ مثلاً

٭گھروں، باغات اور کھلی جگہوں پر حشرات کی اسریننگ کو ممکن بنایا جائے۔

٭حشرات کے دوسرے داخلی مقامات کومسدود کیا جائے۔

٭کھڑے پانی کے نکاس کا فوری انتظام کریں یہ جگہیں حشرات کے لیےموزوں ترین ہیں۔

٭کیڑوں کو دور رکھنے کے لیے کیڑے مار اسپرے یا لوشن کا استعمال کیا جائے۔

٭رات کے وقت روشنی کا استعمال کم کریں عموماً حشرات روشنی کی طرف کشش رکھتے ہیں۔

٭اپنے گھر کے ساتھ ساتھ اردگرد کے ماحول کو بھی صاف رکھیں، تاکہ حشرات کی افزائش کو روکا جاسکے۔

یہ اقدامات بارش میں کیڑوں سے محفوظ رہنے میں مدد گار اور آپ کو مختلف بیماریوں سے بچانے میں معاون ثابت ہونگے۔

بدقسمی سے حالیہ بارشیوں نے کھڑی فصلوں پر بڑے مضر اثرات مرتب کئے، جس کی وجہ سے فصل کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ پانی کی زیادتی پودوں کی جڑوں کو نقصان پہنچاتی ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پاتے اور ان کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ 

اس طرح کثیر بارشوں کا ہونا زمین کو بہت نرم اور بھر بھرا کردیتا ہے اور مٹی کی زائد مقدار بھی پانی کے بہاؤ کے ساتھ بہہ جاتی ہے اور پودے اپنا توازن کھو بیٹھتے ہیں، کئی پودے ایسے ہوتے ہیں جن کی جڑیں بے نقاب ہوکر کمزور ہوجاتی ہیں بعد میں وہ مکمل سو کھ کر پودے کی موت کا باعث بنتی ہیں یا پھر یہ نشوونما کا عمل سست کردیتی ہیں۔

بھاری مقدار میں پانی فصلوں میں فنگس اور بیکٹیریا پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے جو پودوں میں کئی امراض کو جنم دیتا ہے اور پودے بغیر پروان چڑھے گل سڑ کر ختم ہوجاتے ہیں۔ اس طرح پانی کی زیادہ مقدار جذب ہوجانے کی وجہ سے سبزیوں اور پھلوں کا معیار گر جاتا ہے اور یہ وقت سے پہلے خراب ہوجاتی ہیں اور ہم بین الاقوامی معیار پر پورا نہ اترتے ہوئے ان کے معیار کے تقاضے پورے نہیں کرپاتے اور ہماری پروڈکشن بین الاقوامی منڈی تک رسائی سے محروم رہ جاتی ہے، جس سے نہ صرف کسان برادری کو بلکہ ملک کو بھی کثیر زرمبادلہ سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ 

بارشوں کا مسلسل ہونا زمین میں موجود کھاد اور غذائی عناصر کو پانی کے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے، جس سے فصلوں کو مناسب مقدار میں غذائیت نہ ملنے سے ان کی نشوونما کے ساتھ ساتھ غذائی مقدار اور ذائقہ پر بھی فرق پڑتا ہے اور پھلوں اور سبزیوں کی مانگ میں خاطر خواہ کمی دیکھنے میں ملتی ہے۔ درج ذیل تجاویز کسان برادری کے لیے قلم بند کی جارہی ہیں۔ ان پر عمل پیرا ہوکر ہم کسی حد تک اپنی زرعی اراضی کو نقصان سے بچاسکتے ہیں۔

٭کھیتوں میں نکاس کا خاطر خواہ انتظام ہو،تا کہ اضافی پانی کو باہر نکالا جاسکے۔ کھیتوں میں نالیوں کی تعمیر کو یقینی بنایا جائے، تاکہ پودے زائد پانی کی فراہمی سے بچ سکے۔

٭مٹی کی اوپری سطح پر (Mulch) کا استعمال کیا جائے، تاکہ زمین میں نمی برقرار رہے اور پانی کے بہائو کو کنٹرول کیا جاسکے۔ اس کے ساتھ زمین کی ذرخیزی متاثر نہیں ہوگی۔

٭زمین کی تیاری میں سوراخ دار تیکنیک کا استعمال کیا جائے، تاکہ پانی زمین میں بہتر انداز سے جذب ہوسکے اور جڑوں تک مناسب مقدر میں پہنچ سکے۔ اس طرح پودے اپنا توازن قائم رکھ سکے گے۔

٭فصلوں کی بوائی بروقت اور موسم کے حساب سے کی جائے، تاکہ بھاری بارش کے دوران پودے مستحکم رہیں اور ان کا نقصان کم سے کم ہو۔

٭پسٹیا گڈز اور فنگیسائڈز کا مناسب مقدار میں استعمال فصلوں کو بھاری نقصان سے بچاسکتا ہے۔

٭بارش کے بعد کھیتوں میں فوری طور پر مناسب مقدار میں کھاد ڈالی جائے ،تاکہ جو نمکیات اور دوسرے ضروری اجزاء کی کمی ہوتی ہے اس کو فوری طور پر پورا کیا جائے اور صل کی شادابی متاثر نہ ہو۔

٭کھیتوں کے اطراف میں درخت لگائے جائے ،تاکہ براہ راست ہوا کے پریشر کو روکا جاسکے۔ اس طرح پودے زیادہ متاثر نہیں ہونگے۔

یہ تمام وہ احتیاطی تدابیر ہیں جن کو اپنا کر یقیناً ہماری کسان برادری اپنی فصلوں کی بہترین حفاظت کرسکتے ہیں اور فصلوں کو بروقت نقصان سے بچایا بھی جاسکتا ہے ایک زرعی ملک کے باسی ہونے کے ناطے یہ ہمارا فرض ہے کہ ان تمام ذرائع اور وسائل کو بروکائے کار لانے کی ضرورت کو ممکن بنائیں، جس پر عمل پیرا ہوکر ہم اپنی بین الاقوامی معیار اور اپنی قوم کی نجی ضروریات کو پورا کرسکے انفرادی کوشش یقیناً اجتماعی ترقی کا باعث بنتی ہے۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید