(گزشتہ سے پیوستہ )
نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان نے بطور گورنر مغربی پاکستان تعلیمی اداروں میں سختی کے ساتھ ڈانس پارٹیوں اور اس نوعیت کی تقریبات پر پابندی لگا دی تھی ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ آج لاہور کے کئی پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں ویلکم فیئر ویل اور فن فیئر کے نام پر ڈانس پارٹیاں ہو رہی ہیں اور کبھی کبھار ان پارٹیوں کی ویڈیوز بھی وائرل ہو جاتی ہیں۔ لاہور کے بے شمار تعلیمی اداروں میں اب ایک نئی قسم کی ثقافت نے جنم لے لیا ہے تمام اچھی روایات تہذیب اور رکھ رکھاؤ والا کلچر کب کا ختم ہو چکا ہے۔
بات ہو رہی تھی ہیرا منڈی/ شاہی محلہ کی معروف صحافی دانشور آغا شورش کاشمیری مرحوم نے آج سے کئی برس قبل بڑی ریسرچ کر کے ہیرا منڈی پر کتاب لکھی تھی انہوں نے اپنی اس کتاب’’ اس بازار میں‘‘ کے لیے 600 طوائفوں کے انٹرویوز کیے تھے اور کیا کمال کے انٹرویوز ہیں۔اس طرح ایک غیر ملکی خاتون لوئز برائونڈ نے لاہور کی ہیرا منڈی میں کئی برس رہ کر ایک کتاب دی ڈانسنگ گرلز آف لاہور لکھی تھی بڑی مختلف کتاب تھی۔ اسی طرح سر سید احمد خان نے تعلیمی ادارے علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے بالا خانوں پر بھی دستک دی تھی۔ سر سید احمد خان علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کے لیے پیسے اکٹھے کرنے کے لیے لاہور بھی آئے تھے اور انہوں نے لاہوریوں کو زندہ دلانِ لاہور اور زندہ دلانِ پنجاب کے خطاب بھی دیے تھے۔ لاہور میں سر سید احمد خان نے مختلف جگہوں پر خطاب بھی کیا تھا۔ انقلاب فرانس میں ایک طوائف نے پہلی گولی اپنے سینے پر کھائی تھی اسی طرح جلیانوالہ باغ میں پہلا شہید ہونے والا بھی ایک طوائف کا بیٹا تھا۔
لاہور میں کبھی دو لاک ہاسپٹل تھے ایک ڈسٹرکٹ میاں میرلاک اسپتال اور دوسرا میاں میر ہسپتال دلچسپ بات یہ ہے کہ انارکلی میں قائم ڈسٹرکٹ ہسپتال جو کہ 1879 میں قائم ہوا تھا وہ شاہی قلعہ لاہور کے ایک عطار کی نگرانی میں کام کرتا تھا لاہور میں سب سے زیادہ عطار آج بھی رائل آرٹلری بازار لاہور کینٹ (میاں میر) میں بیٹھےہیں جبکہ شہر میںلوہاری دروازہ زیادہ اور دیگر دروازوں میں بھی عطار بیٹھتے ہیں۔ رائل آرٹلری بازار میں ہم نے خود بے شمارعطاروں کی دکانیں دیکھی ہیں۔ شاہی قلعہ لاہور کے اس عطار کو 25 روپے تنخواہ ملتی تھی جبکہ ملٹری ڈپارٹمنٹ نے ایک دائی بھی 10 روپے ماہانہ پر ملازمہ رکھی ہوئی تھی گوروں نے باقاعدہ ایک ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی ڈیوٹی لگا رکھی تھی جو طوائفوں کی شکایات سنتا تھا اور ان کی رجسٹریشن بھی کیا کرتا تھا۔ یہ رجسٹریشن والا طریقہ کار کافی مختلف انداز میں قیام پاکستان کے بعد بھی جاری رہا ۔گوروں کے زمانے میں طوائفوں کو بھی طبی معائنہ لازمی کرانا پڑتا تھا طبی معائنہ نہ کرانے والی طوائفوں کو جرمانہ کر کے جرمانے کی رقم بوڑھی اور بے سہارا طوائفوں کو دی جاتی تھی۔ میاں میر لاک ہسپتال 1859 میں قائم کیا گیا تھا اس کا انچارج ڈویژنل سٹاف سرجن ہوتا تھا جو روزانہ 18 طوائفوں کا طبی معائنہ کرتا تھا۔طوائفوں کا باقاعدہ بہبود فنڈ تھا جس میں جرمانے کی رقم جمع کرائی جاتی تھی۔
ایک دور تھا کہ کوئی شریف آدمی لاہور کی ہیرا منڈی سے گزرنا پسند نہیں کرتا تھا دوسرے اس زمانے میں بھاٹی دروازے کا بازار ون وے ٹریفک تھا یعنی آپ بھاٹی دروازے سے داخل ہو کرمجبوراًہیرامنڈی سے ہوتے ہوئے ٹیکسالی دروازے سے باہر آتے تھے۔ چنانچہ فقیر خانہ تک کے شریف رہائشی با امر مجبوری شاہی محلہ سے گزر کر راوی روڈ یا فورٹ روڈ آتے تھے ۔ہیرا منڈی میں بارود خانہ اور میاں صلی کی حویلی بڑی مشہور ہے میاں صلی کی حویلی میں آج بھی پی ٹی وی والے مختلف موسیقی کی محفلیں ریکارڈ کرتے ہیں۔اب وہاں شادی بیاہ مہندی کی تقریبات بھی ہوتی ہیں جس کا کرایہ وصول کیا جاتا ہے اب تو ہر شریف آدمی ہیرا منڈی شاہی محلہ آجاتا ہے البتہ طبلے ،ستار اور گھنگھروبنانے والوں کی دکانیںآج بھی موجود ہیں۔ ہم نے ایک طبلہ ڈھولکی ،ہارمونیم ستار بنانے والے سے بات کی تو اس نے کہا کہ کبھی یہاں پر ہارمونیم ،ستار، طبلے اور ڈھولکی بنانے والوں کی بے شمار دکانیں تھیں اب تو صرف چند ایک رہ گئی ہیں کبھی گھنگھرو کی دکانیں بھی تھیں۔ لاہوریوں کیلئے یہ بات بڑی دلچسپ ہو گی کہ لاہور میں ایک کوچہ گھنگھرو سازاں بھی ہے۔جہاں پر گھنگھرو بنانے والےرہتے تھے۔ اس زمانے کی طوائفیں اردوشاعری اور ادب سے بھی لگاؤ رکھتی تھیں ۔اور کہا جاتا ہے کہ سعادت حسن منٹو کی تووہ عاشق تھیں اس کی تحریروں کی وجہ سے ۔بہت ہی کم لاہورئیے یہ جانتے ہوں گے یا شاید اب کوئی کوئی اس بات سے واقف ہوگا کہ لاہور میں اب تک ایک ایسا ہال موجود ہے جہاں پر بیک وقت رقص و سرود، مجرے اور گانے کی محفلیںہوتی تھیںتو دوسری طرف تحریک آزادی کے جلسے بھی ہوتے تھے بلکہ تحریک آزادی کے ایک ہیرو بھگت سنگھ کا بھی اس ہال سے کچھ تعلق رہا ہے ۔یہ لاہور کا بریڈ لاہال ہے جو آج خستہ حالت میں ریٹی گن روڈ ہمارے آبائی گھر کے بالکل قریب واقع ہے۔ جہاں پر دو سے تین ہزارافرادکے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔ تحریک آزادی کے جلسے لاہور کے تین ہالز میںبہت ہوئے۔ بریڈ لا ہال، برکت علی اسلامیہ حال سرکلر روڈ بیرون موچی دروازہ وائی ایم سی اے یہ تاریخی ہال بھی اب برے حالات میں ہے۔ امرتسر کی مشہور مغنیہ گوہر جان نے اس بریڈ ہال میں 1911 اور 1912میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا۔ وہ لاہوریوں کی رنگین مزاجی سے بہت لطف اندوز ہوتی تھی۔ اس ہال میں لاہور کی تھیٹر کمپنیاں بھی اپنے کھیل دکھایا کرتی تھیں ۔اس زمانے کی مغنیہ، طوائفیں مشہور شعرا کی غزلیں سنایا کرتی تھیں جس طرح ہم نے پہلے عرض کیا تھا کہ لاہور کے تعلیمی اداروں میں محفل موسیقی اور رقص کی محفلیں ہوا کرتی تھیں جن پر نواب آف کالا باغ نے پابندی لگا رکھی تھی 1935 میں پنجاب یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس ہال میں بہت بڑی محفل موسیقی ہوئی تھی اور اس ہال میں مختلف کتابی، ثقافتی اور رنگ برنگی تقریبات ہوتی رہتی تھیں اس حال میں ایک مدت تک یوم اقبال کی تقریبات بھی ہوتی رہیں مگر اب یہاں کوئی تقریب نہیں ہوتی۔ (جاری ہے)