کالم کا’’عنوان‘‘ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کابیان ہے۔ انہوں نے یہ بات گزشتہ ماہ کراچی میں ایک تقریب میں خطاب کے دوران کہی کہ 70 فیصد گیس ہم پیدا کررہے ہیں اس کے باوجود صنعتوں کو آر ایل این جی فراہم کی جارہی ہے جبکہ ہمیں قدرتی گیس چاہئے۔توانائی کے بحران کا حل فقط سندھ کے پاس ہے‘ بہرحال جلد نئی پاور کمپنی پر کام شروع کیا جائے گا‘‘۔ اس خطاب میں مراد علی شاہ نے اس بات کی بھی شکایت کی کہ سندھ کو اپنے حصے کی بجلی بھی نہیں مل رہی ہے،اس مرحلے پر انہوں نے خاص طور پر اس بات کا ذکر کیا کہ تھر کے کوئلے سے بہت سستی بجلی پیدا کی جارہی ہے‘ سارے ملک کی توانائی کی ضرورتیں تھرکے کوئلے سے پوری کی جاسکتی ہیں۔ اگر تھر کے کوئلے سے بجلی تیار کی جائے تو بجلی کی قیمت میں 50 فیصد کمی لائی جاسکتی ہے۔
وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے کہا کہ اس وقت ہم کے الیکٹرک کو نوری آباد پاور پلانٹ سے بجلی فقط 15 روپے 80پیسے قیمت پر فراہم کررہے ہیں‘ یہ بجلی صنعتوں اور گھریلو صارفین کو بہت مہنگی شرح پر فروخت کی جارہی ہے۔ اس وقت ملک کی 46 فیصد برآمد کراچی سے ہورہی ہے جبکہ یہ 80 فیصد ہوسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت مہنگی بجلی اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے صنعتوں کو کئی مشکلات درپیش ہیں‘ بہت سی صنعتیں بند ہوگئی ہیں۔ انہوں نے زور دیکر کہا کہ بجلی اور گیس کے بحران کا حل سندھ کے پاس ہے‘ سندھ 70 فیصد گیس پید اکرتاہے اورسندھ پاکستان کی ’’انرجی باسکٹ‘‘ ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے مزید کہا کہ آئین کے مطابق جو صوبہ گیس پیدا کرتا ہے تو گیس دینے میں اولیت اسی صوبے کو ملنی چاہئے مگر سندھ کی صنعتوں کو گیس فراہم نہیں کی جارہی ہے۔مرا د علی شاہ صاحب نے مزید کہا کہ تھر میں اتنا کوئلہ موجود ہے جس سے سارے ملک کی توانائی اور پانی کی ضرورتیں پوری ہوسکتی ہیں نیزکوئلہ سے ڈیزل بھی تیار کرکے پورے پاکستان کو فراہم کیا جاسکتا ہے۔
نوری آباد پاور پلانٹ سے کے الیکٹر ک کو 100 میگا واٹ 15روپے فی یونٹ کے حساب سے فراہم کی جانےوالی بجلی 24سے 25روپے فی یونٹ سے کم میں فروخت نہیں کی جارہی ہے۔ اس مرحلے پر شاہ صاحب نے بڑے دکھ کےساتھ سوال کیا کہ اتنی سستی بجلی پیدا کرنے کے باوجود سندھ کو کیوںدوسرا پاور پلانٹ لگانے نہیں دیا گیا؟بہرحال کافی مشکلات کے بعد سندھ کی نئی پاور کمپنی ’’سندھ الیکٹرک ریگولیٹری اتھارٹی‘‘ بنانے کی منظوری ملی ہے جو بہت جلد شروع کی جائےگی۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے یہ بھی کہا کہ سندھ پاکستان کا پہلا صوبہ ہے جس نے پہلی ٹرانسمیشن لائن بچھائی، اگر سندھ کو اپنے وسائل سے بجلی پیدا کرنے کی اجازت دیے دی جائے تو بجلی کی قیمت 50 فیصد کم ہوسکتی ہے۔
وزیراعلیٰ سندھ نےمزید کہا کہ ملک میں شہید بے نظیر بھٹو سستی بجلی لائی تھیں ،بی بی کی پاور پالیسی کو بنگلا دیش نے بھی اختیار کیا مگر بدقسمتی سے اس پالیسی کو رد کیا گیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کیپسٹی چارجز والے ایشو پر آئی پی پیز سے دوبارہ بات چیت ہوسکتی ہے‘ منصوبہ بندی سےیہ مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔ اس مرحلے پر وزیر اعلیٰ سندھ نے شکایت کی کہ میڈیا کراچی کا مثبت انداز میں ذکر نہیں کررہا ہےحالانکہ ملک بھر سے لوگ یہاں روزگار کیلئے آتے ہیں۔ اس سال کے بجٹ میں کراچی کیلئے 225ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے تسلیم کیا کہ کراچی میں مسائل ضرور ہیں مگر صورتحال اتنی خراب نہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی فقط شہر نہیں، پوری قوم کی لائف لائن ہے۔ شاہ صاحب نے سندھ کی اصل مشکلات کے حل کی بابت کئی اہم تجاویز بھی دیں۔ میں فی الحال اس خطاب کے ایک خاص نکتے کا ضرور ذکر کروں گا کہ سندھ کو گیس دی جارہی ہے نہ بجلی۔ حالانکہ آئین میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جو گیس اور بجلی کسی ایک صوبے میں پیدا ہوتی ہے اس پر سب سے پہلا حق اس صوبے کا ہے ہم آئین کے آرٹیکل 157 کا جائزہ لیتے ہیں‘ اس آرٹیکل کی شق 2میں کہا گیا ہے :
2) The Government of a Province may:
(a) to the extent electricity is supplied to that Province from the national grid, require supply to be made in bulk for transmission and distribution within the Province;
(b) levy tax on consumption of electricity within the Province;
(c) construct power houses and grid stations and lay transmission lines for use within the Province; and
(d) determine the tariff for distribution of electricity within the Province.
گیس کے بارے میں آئین کے آرٹیکل 158 میں کہا گیا ہے کہ :
158.The Province in which a well-head of natural gas is situated shall have precedence over other parts of Pakistan in meeting the requirements from that well-head, subject to the commitments and obligations as on the commencing day.