• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈاکٹر نعمان نعیم

رسول اکرم ﷺ سے عقیدت ومحبت اور آپ کی عظمت کا تقاضا ہے کہ مسلمانوں کا کوئی دن اور کوئی لمحہ ایسا نہ ہو، جب اس کے دل کی دنیا رسول اللہ ﷺکی یاد سے آباد نہ ہو، لیکن حیاتِ محمدی ﷺ سے اس ماہ کی خصوصی نسبت کی وجہ سے عام طور پر اس موقع پر زیادہ جلسے کئے جاتے ہیں، اخبارات ورسائل کے نمبرات نکلتے ہیں اور مختلف طریقوں پر سیرت طیبہ کے تذکرہ کو تازہ کیا جاتا ہے، اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ ﷺ پر نہ صرف ایمان لانا ضروری ہے، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ آپ ﷺ کی بے انتہاء عظمت اور تمام چیزوں سے بڑھ کر محبت ہمارے دلوں میں موجزن ہو، یہ محبت ہمارے ایمان کا جزواور ہمارے دین کی اساس ہے اور یہ حضور ﷺ کا معجزہ ہے کہ اس امت کے دل میں آپ ﷺ کی محبت کا جو غیر معمولی جذبہ کارفرما ہے، دوسرے مذاہب کے متبعین میں اپنے پیشوائوں سے متعلق اس کا سوواں حصہ بھی نہیں ملتا، اور کیوںنہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے بعد ہر مسلمان کے لئے آپ ﷺ ہی کی ذات بابرکات سب سے محبوب ترین ہستی ہے، ا سے اپنے وجود سے بھی بڑھ کر آپ ﷺ سے محبت ہے اور اگر اس کا سینہ اس جذبے سے خالی ہو تو وہ مسلمان ہی باقی نہیں رہے گا۔

محبت کے تقاضوں میں یہ بات شامل ہوتی ہے کہ انسان محبت کا اظہار کرے، اللہ اور رسول ﷺکی محبت تو مؤمن کے لیے معراج ہے، لیکن انسان تو دنیا میں بھی جب کسی سے محبت کرتا ہے تو اسے اظہار محبت کے بغیر چین نہیں ملتا، اس لئے رسول اللہﷺ سے محبت کا فطری تقاضا آپ سے محبت کا اظہار بھی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ اظہار محبت کا طریقہ کیا ہو؟ — محبوب کے لحاظ سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے، انسان کو اپنے والدین سے بھی محبت ہوتی ہے اور اولاد سے بھی، استاذ اور شیخ سے بھی محبت ہوتی ہے اورشاگرد و مرید سے بھی، شوہر و بیوی بھی ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، اور دوستوں میں بھی باہم محبت کا تعلق ہوتا ہے، لیکن ہرجگہ اظہار محبت کا ایک ہی انداز نہیں ہوتا، اظہارِ محبت میں دو باتوں کو خاص طور پر ملحوظ رکھا جاتا ہے، محبوب کا مقام ومرتبہ اور محبوب کی پسند، مقام ومرتبے کا لحاظ بے حد ضروری ہے، ایک شخص اپنے بچوں سے پیار کرتے ہوئے محبت کے جو بول بولتا اور جو طریقہ کار اختیار کرتا ہے، اگر وہی الفاظ اپنے ماں باپ سے کہے اور وہی طریقہ ان کے ساتھ اختیار کرے تو یہ محبت کی بجائے بے ادبی اور گستاخی ہوجائے گی، اسی طرح کسی شخص کو جو شئے پسند نہ ہو، آپ اس کی پسند و ناپسند کی پروا کئے بغیر اس کی ناپسندیدہ شئے بطور اظہار محبت کے اس کے سامنے پیش کردیں تو یا تو اسے بے وقوفی سمجھا جائے گا یا تمسخر۔ لہٰذا محبت کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔

ہماری معاشرتی زندگی میں بہت سی باتیں جو اختیار کی جاتیں ہیں، وہ ایسی ہیں، جنہیں رسول اللہ ﷺنے ناپسند فرمایا ہے، آپ ﷺ نے کسی بھی انسان کو تکلیف پہنچانے کے عمل سے منع فرمایا، آپ ﷺنے درخت کو کاٹنے سے منع فرمایا، کیوں کہ اس کی وجہ سے انسان سایہ سے محروم ہوتا اور ماحولیاتی توازن متاثر ہوتا ہے، آپ ﷺ نے گھر کی نالی راستے پر نکالنے سے روکا، تاکہ تعفن پیدا نہ ہو، آپ ﷺ نے راستے میں کچرا اور تکلیف دہ چیزیں ڈالنے سے منع فرمایا، یہاں تک کہ ارشاد ہوا کہ راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا بھی ایمان میں داخل ہے۔ (صحیح مسلم، باب شعب الایمان، حدیث نمبر: ۲۶۱) 

تکلیف دہ چیزوں میں راستے کی رکاوٹ بھی شامل ہے، راستے میں ایسی چیزیں رکھ دینا کہ ٹریفک کی روانی متاثر ہوجائے، اس طرح کھڑا ہوجانا کہ چلنے والوں کے لئے رکاوٹ پیدا ہوجائے اس تکلیف دہ چیزمیں داخل ہے، جس کے ہٹانے کا آپ ﷺ نے حکم فرمایا ہے۔

ایسی ریکارڈ نگ لگانا کہ محلے کے لوگوں کے لئے سونا دشوار ہوجائے یا بیماروں کو تکلیف ہونے لگے، ایذا ہی کی ایک شکل ہے۔ حضرت مقدادؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ رات کے وقت کسی جگہ جاتے تو ایسی آواز میں سلام فرماتے کہ جو لوگ بیدار ہو ں ،وہ سن لیں اور جو لوگ سوئے ہوئے ہوں، ان کی نیند میں خلل واقع نہ ہو(صحیح مسلم، ۵۵۰۲)

یہاں تک کہ آپ ﷺنے قرآن مجید بھی بہت اونچی آواز میں پڑھنے کو پسند نہیں فرمایا، حضرت ابو سعید خدریؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺمسجد میں معتکف تھے، آپ ﷺنے صحابہ ؓکو بہت بلند آواز سے قرآن مجید پڑھتے ہوئے سنا تو پردہ ہٹایا اور فرمایا کہ تم سب اپنے پروردگار سے سرگوشی کررہے ہو، لہٰذا ایک دوسرے کو تکلیف نہ پہنچاؤ اورقرآن پڑھنے میں ایک دوسرے سے آواز بلند نہ کرو۔(سنن ابو دائود، ۲۳۳۱)

اسوۂ رسولﷺ اور تعلیمات ِ نبوی ہرشعبۂ زندگی میں ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ لہٰذا زندگی کے ہر دور اور ہر موڑ پر رسول اللہﷺ کے اسوۂ حسنہ اور پیاری تعلیمات کو پیش نظر رکھنا اور ان پر عمل پیرا ہونا درحقیقت رسول اللہﷺ سے عقیدت و محبت اور اطاعت کا حقیقی مظہرہے۔

اس ماہ ِ مبارک میں اظہار مسرت کا ایک بہتر طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اس یادگار مہینے میں رسول اللہ ﷺکی سیرت مبارکہ کے پڑھنے اور اپنی نئی نسل تک اسے پہنچانے کا اہتمام کریں، اللہ کا شکر ہے کہ ہر زبان میں سیرت کا لٹریچر موجود ہے، یہ کتابیں مختصر بھی ہیں، متوسط ضخامت کی بھی ہیں اور ضخیم بھی ہم خود ان کا مطالعہ کریں اور اپنے مطالعے کونئی نسل تک پہنچائیں، خواتین اور بچوں کو سنائیں، آج صورت حال یہ ہے کہ مسلمان نوجوانوں، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ اورطلبہ و طالبات کو رسول اللہ ﷺ کی پاک اولاد اور پاک بیویوں کے نام تک یاد نہیں۔ 

اگر ان سے آپﷺ کے صحابہ کا نام دریافت کیا جائے تو چاروں خلفاء کے بعد کم ہی لوگ ہوں گے جو کسی پانچویں صحابی کا نام بتاسکیں، خود رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ کے دس بیس واقعات بھی انہیں معلوم نہیں ہیں، کیا یہ بات محبت کے تقاضے میں داخل نہیں ہے کہ انسان اپنے محبوب کو جانے،پہچانے اور دوسروں سے اس کا تعارف کرائے؟ پس آئیے کہ اس مہینے کو ہم سیرت طیبہ کے پڑھنے اور اپنی نئی نسل تک سیرت نبوی کو پہنچانے کا مہینہ بنائیں، اس کے لئے ایک منصوبہ بنائیں، کوئز پروگرام منعقد کریں اور بچوں کو انعام دے کر انہیں سیرت نبویؐ سے واقف کرائیں۔

اظہار محبت کا مناسب طریقہ یہ ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور آپ ﷺ کی انسانیت نواز تعلیمات کو پہنچائیں، اس وقت مغرب کی جانب سے ایک منظم کوشش کی جارہی ہے کہ اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں غلط فہمیاں پیدا کی جائیں، آپ ﷺ کی توہین کے لئے مختلف حربے استعمال کئے جاتےہیں،جب اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں تو ہم لوگ احتجاج کرتے ہیں اور ہم اس احتجاج میں حق بجانب بھی ہیں، لیکن یہ اس مسئلے کا پائیدار اور مستقل حل نہیں ہے، اس کا اصل حل یہ ہے کہ غیر مسلموں تک رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ پہنچائی جائے، خاص کر آپ ﷺ کی بلند اخلاقی کے واقعات اور انسانیت نواز تعلیمات کو عام کیا جائے، مقامی زبانوں میں سیرت کا لٹریچر زیادہ سے زیادہ مقدار میں شائع کیا جائے اور ایک ایک غیر مسلم تک اسے پہنچانے کی کوشش کی جائے، تو یہ رسول اللہ ﷺسے محبت کا حقیقی اظہار ہوگا، اس طرح غلط فہمیوں کے بادل چھٹیں گے، لوگ آپ ﷺ کی ہستی کو پہچانیں گے اور آپ ﷺ کی محبت و عظمت لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوگی۔