• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر اتوار کی طرح یہ اتوار بھی تھا مگر 2بجے ٹیلی وژن آن کیا کہ اجلاس ہو نا تھا۔ کہا 4بجے ہوگا، بند کر دیا۔ 4 بجے کھولا کہا 6 بجے ، پھر 8بجے اور آخر کو دس بج گئے میں تو ویسے ہی ٹی وی سے الرجک ہو چکی ہوں، مسلسل بے معنی موضوعات اور مطلب پرست شخصیات کی گفتگو سے، یہ میں ہی نہیں، ہر فرد جو کتاب کا عاشق اور معنویت کا پیروکار ہے۔ اُسے کرار حسین یا پھر کم در جے پہ آؤ تو اعتزاز کی باتوں میں معنویت، سیاسی اور معاشرتی جھلک ملتی ہے۔ گھڑی نے اپنا چکر ختم کرکے پھر دس بجائے۔ ابھی سارے سیاست دانوں کی آنیاں اور جانیاں جو رات گئے تک رہی تھیں، وہ پھر سایوں کی طرح ہونق بنے، منزل سجود اس وقت چوہدری شجاعت نہیں بلکہ مولانا فضل الرحمٰن تھے۔ جس طرح لڑکیوں کو آج تک نکاح نامہ نہیں پڑھایا جاتا۔ اس طرح ہوا میں گونج تھی کہ کوئی مسودہ ہے جو عیاں نہیں کیا جا رہا، مگر فتح مبین کا دعویٰ، حکومتی فرشتے ہر رہ گزر سے گزر کر اور پھر لوٹ لوٹ کر ان کے در پہ جارہے تھے جن کو ہم لوگ ’’مولانا‘‘ کہہ کر، صرف اور صرف مذہبی تقاریب کے شایاں سمجھتے ہیں۔ سیاست، وکالت اور عدلیہ کی باتیں بس افتخار چوہدری کے زمانے میں، وکیلوں، سول سوسائٹی کےلوگوں کو متحرک بغضِ مشرف اور عدالتوں کی حرمت اور افتخار چوہدری ایک ’’ناں‘‘ کے جواب میں، مقتدر قوتوں کی سنسناہٹ، جھنجھلاہٹ ایکدم، گوجرانوالہ تک قافلہ پہنچا کہ آواز اس طرح آئی جیسے پیر کی دوپہر یعنی 16ستمبر کو میڈیا پر پٹی چلنے لگی کہ گزشتہ دس سال کے بعد سیاسی یگانگت نے پیش کاروں کو وہ مشورہ واپس لینے کا سرکاری اعلان کرنے پر مجبور کیا۔شکر ہے اس دوران ہر چند سیاسی جماعتوں میں پی ٹی آئی بھی شامل تھی مگرشکر ہے کہ قیدی نمبر 804نے اپنی بلوغت کا اظہار نہیں کیا۔

مگر ایک بہت اہم نکتہ جو اس چھپائے ہوئے مسودے میں شامل تھا وہ واقعی نہ صرف حکومت، عدلیہ اور سارے ججز کی توجہ چاہتا ہے اور میں خود چھوٹے شہروں میں جاکر، مقامی جھگڑوں، وراثت سے لیکر بچوں اور عورتوںکے بنیادی جھگڑوں کو جو مقامی عدالت تک پہنچ جاتے ہیں۔ وہاں ایک سیشن جج شاید کوئی ایک امتحان پاس کرکے، اس کرسی پر بیٹھتا ہے۔ پھر وہ اس طرح عدالتوں میں جگہ بہ جگہ ٹرانسفر ہونے کے باوجود نہ کوئی اور امتحان کے قابل اور اس طرح اگلے گریڈ میں ترقی کے قابل سمجھا جاتا ہے، وہ بھی مقامی سیاست، پٹواری اور تحصیل دار کی سیاست کا حصہ بن کر یہ بھول جاتا ہے کہ مجھے بھی حق ہے کہ میں پروموٹ ہوکر بڑی عدالتوں تک زندگی کے 60سال پورے کروں۔ کوئی نصیب والا یا پہنچ والا ہو تو اگلی عدالت تک کی سیڑھیاں چڑھ جاتا ہے ورنہ کوئی قانونی راستہ نہیں ہے کہ اس کے بچے بھی افتخار چوہدری یا ثاقب نثار کے بچوں کی طرح قانون کی اعلیٰ تعلیم کے علاوہ سیاسی پنگوں میں دخل دیں۔ مطالبہ تو یہ ہونا چاہئے کہ جس طرح پولیس سے لیکر سب سی۔ ایس۔ ایس پاس کرکے سول سروس میں آتے ہیں۔ اسی طرح عدالتوں میں بھی تحصیل، ضلع اور پھر لوئر کورٹس سے ہوتے ہوئے ڈسٹرکٹ، ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ تک اس بنا پر نہ پہنچیں کہ وہ با ہر کے ملکوں سے ایل ایل ایم وغیرہ وغیرہ کرکے آئے ہیں۔ رضا کا ظم یاعابد منٹو جیسے وکلانے ججوں کی سیڑھیاں چڑھنا گوارا نہ کیا۔ خلاصہ یہ کہ ہر شخص کے لئے جیسے پروفیسر بننے کیلئے ڈاکٹریٹ کرنا لازمی ہے۔ اس طرح ہر شعبۂ زندگی میں ترقی کی منزلوں کا تعین کیا جائے۔ اس طرح رشوت اور سفارش کے راستوں کو بند کیا جا سکتا ہے۔

آج بات تو شروع کرنی چاہئے تھی عید میلاد اور اقرا کے حکم کے توسط سے کہ ہمارے اسلامی ملک میں ہم کیسے مسلمان ہیں کہ ہمارے بچے کیا بوڑھے بھی قرآن کے معانی سے نابلد ہیں۔ لوگ حج کیلئےجاتے ہیں۔ معلم جو کہتا ہے وہ دہرا کر حج ہو جاتاہے۔ وہ جو علم روحِ دو عالم ﷺ نے ہمیں بخشا ہے وہاں تو چراغ تلے اندھیرا ہی ہے۔تعلیم کیلئے بھی 3الگ الگ طریقے ہیں۔ مدرسہ، سرکا ری اسکول اور پرائیویٹ۔ ہر چند ہر روز خود مریم بی بی کہتی ہیں کہ کوئی ایسا نظام ہو جس پر عمل کر کے، طریق تعلیم کو مشترک کر دیا جائے یوں تو مدرسےکے بعد بچوں کو کالج میں داخلے کی تحریک ہے اور بہت سے بچے یوں دونوں طرح کے علوم کو خوب سمجھ جاتے ہیں مگر یہ کوئی باقاعدہ تحریک یا نصاب نہیں۔ ایک اور کوشش جو بی بی مریم اور خود وزیراعظم کر رہے ہیں وہ دانش اسکولوں کا سلسلہ ہے، تعلیم میں ایسے مخمل کے پیوند مت لگایئے۔ یونیفارم طرزِ تعلیم میں ہی ذہنی برداشت اور شعور وسیع ہو گا۔ بچوں کو صرف کمپیوٹر سکھانے کا فائدہ نہیں۔ اس وقت یورپ، امریکہ اور کینیڈا کے تمام اسکولوں میں 16سال کی عمر تک موبائل کے استعمال پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ یہ لوٹنا، موبائل کے برے انجام دیکھ کر اور نفسیاتی بگاڑکو ختم کرنے کیلئے تحریک شروع کی گئی ہے۔ ہمارے اسکولوں میں کھانا دینے کی تحریک کوئی پچیس، سال سے چلتی اوررک جاتی رہی ہے۔ یہ بالکل اس طرح سے ہے کہ ہمارے بچپن میں شاید یونیسیف کی طرف سے دودھ کے ڈبے اور بسکٹ دیئے جاتے تھے، وہ بھی بیگمات کے کچن میں اس طرح پہنچ جاتے تھے جیسے سیلاب اور زلزلے کے بعد آنے والے گھی کے ڈبوں کو ہم نے یوٹیلیٹی اسٹورز پر فروخت ہوتے دیکھا ہے۔ چھوڑیں موڈ خراب نہ کریں۔ ابھی تو آپ کے بڑے مسائل ہیں۔ وائس چانسلرز ہی نہیں مل رہے ہیں اور ہر روز کسی نہ کسی گھر میں نوجوان یا جارہا ہوتا ہے یا آرہا ہوتا ہے۔ باہر سے اعلیٰ تعلیم لے کر پھر وہ انہی اعلیٰ اداروں میں چلے جاتے ہیں، جہاں فیسیں اعلیٰ ہوں۔ بہرحال تعلیمی ایمرجنسی لگائی جائے۔ سیاسی مہربانوں کی تعلیم بھی کی جائے۔ مولانا فضل الرحمان کو ،جس نے عدلیہ پر تازہ حملہ روکنے کا اشارہ دیا تھا، وہ کوئی درویش انہی کی طرح کا ہوگا مگر قابل تعریف گفتگو اور سیاست میں ٹھہرائو کا مظاہرہ سبق ہے۔ ان سب کیلئے جو ملک کو سنوارنا چاہتے ہیں۔

تازہ ترین