• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انجم پروین

فکشن کی اساس کسی نہ کسی واقعے پر ہوتی ہے۔ اس میں بیان ہونے والا واقعہ ازخود معرض وجود میں نہیں آتا، بلکہ اس کی ترسیل کے لیے کسی ذریعہ یا آلۂ کار کی ضرورت درکار ہوتی ہے، جو تکلمی یا تحریری زبان میں اس کا اظہار کرتا ہے۔ یہ الفاظ دیگر کوئی بھی متن زبان اور بیان کے بغیر تشکیل نہیں دیا جا سکتا۔ یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ ایک لاحقہ ہے گوئی (تکلمی) اور دوسر الا حقہ ہے نگاری ( تحریری)۔

دونوں میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جن اصناف کا تعلق بنیادی طور پر کہنے اور سننے سنانے سے ہے، ان میں گوئی کا لاحقہ استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً داستان گوئی، مرثیہ گوئی، غزل گوئی وغیرہ، اگر چہ ان کا بنیادی تعلق گویائی سے ہے لیکن ان کی پیش کش اور تحفیظ کے لیے تحریر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو اصناف نگارش کے ضمن میں آتی ہیں وہ لکھنے والی ہوتی ہیں اور لکھنے کے بعد انھیں پڑھا جاتا ہے۔ یہیں سے بیانیہ کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ بیانیہ دونوں طرح کی اصناف کا بنیادی عنصر ہے۔ فکشن کی اصطلاح میں قصہ بیان کرنے والے کو راوی، کہا جاتا ہے۔

فکشن کسی بھی قسم کا ہو اور کسی بھی فارم میں ہو، اس کے بیان کے لیے فکشن نگار ایک راوی ( جو فنکار کا قائم مقام ہوتا ہے) ، جو اپنی زبان میں واقعات کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ آخر مصنف فکشن نگار کو، راوی کی ضرورت کیوں کر پیش آتی ہے؟ چونکہ انسانی زندگی نشیب و فراز سے عبارت ہے اور عام انسانی رویوں میں تضاد پایا جاتا ہے، بلکہ انسان کے ظاہر و باطن میں بھی اختلاف رونما ہوتے رہتے ہیں۔ 

اب جب کہ افسانے میں بلکہ ناول میں ایک سے زائد کردار ہوتے ہیں اور سب کے مزاج، رویے اور عادات واطوار ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں یا پھر کوئی ایک شخص بھی مختلف حالات و واقعات میں کئی صورتیں اختیار کر سکتا ہے۔ کسی صدمے یا واقعے کے زیر اثر یا پھر کسی سے محبت نفرت، رقابت اور عداوت کی بنا پر اس کی شخصیت تغیر پذیر ہوسکتی ہے۔ 

ایک صورت حال یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کوئی کردار عادات واطوار کے لحاظ سے بد ہو، یا عمر دراز ہو اور اس کا فعل اس کی عمر اور مرتبے کے برعکس ہو، یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کسی کردار کا ظاہر اس کے باطن کے بر عکس ہو۔ مذکورہ تمام صورتوں میں یہ مسئلہ در پیش ہوتا ہے کہ متضاد افعال و اعمال، اخلاقی غیر اخلاقی امور کو کیسے ایک مصنف کی ذات سے منسوب کیا جا سکتا ہے، جبکہ اس کی حیثیت ایک خلاق، ذہین اور باشعور فرد کے طور پر متصور کی جاتی ہے۔ 

لہذا مصنف کو راوی سے علیحدہ کرنے کے لیے اس امر پر زوردیا گیا کہ فکشن میں مصنف جو کچھ تحریر کرے اس کے بیان کے لیے ایک راوی خلق کرے گا جو مصنف سے منفرد شخصیت کا حامل ہوگا۔ فکشن میں راوی کی تخلیق در اصل کہانی بیان کرنے کا ایک ایسا حربہ ہے، جسے فکشن نگار اپنی ذات سے علیحدہ کر کے استعمال کرتا ہے۔

ہر واقعہ اور اس کے تناظر کا بیان کنندہ راوی ہوتا ہے۔ بیانیہ کا نقطۂ نظر راوی سے منسلک ہوتا ہے۔ کسی متن کی تفہیم کے دوران اس بات پر توجہ مرکوز کی جاتی ہے کہ واقعہ کس کی زبان سے بیان کیا جارہا ہے۔ اگر واقعہ میں کے ذریعے واحد متکلم کے صیغے یا ہم کے ذریعے جمع متکلم کے صیغے میں بیان ہو رہا ہے تو وہ متکلم یا حاضر راوی کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر عصمت چغتائی کا افسانہ ’’لحاف ‘‘ضمیر صیغہ واحد متکلم میں کے ذریعے بیان ہوا ہے۔ 

اس کے برعکس جب کہانی’’ 'وہ‘‘ کے ذریعے واحد غائب کے صیغے میں بیان کی جائے یعنی بیان کنندہ قاری کے سامنے ظاہر نہ ہو، اس کی ذات کو متصور کر لیا جائے کہ کوئی ایسا شخص واقعات بیان کر رہا ہے جسے بذات خود تمام واقعات کا علم ہے، تو اسے غائب راوی یا ہمہ بیں راوی کہا جاتا ہے۔ 

جیسے منٹوکا افسانہ ’’دھواں‘‘ ضمیر’’ وہ‘‘ کے ذریعے واحد غائب کے صیغے میں لکھا گیا ہے۔ کبھی کبھی کہانی یا واقعہ بیک وقت میں اور وہ کے صیغے میں بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔ عموماً فکشن میں جب ناول یا افسانے کا کوئی کردار واقعہ بیان کرے تو وہ بھی اس کا راوی کہا جائے گا۔ 

بعض اوقات یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ مصنف اپنے اصل نام کے ساتھ خود ناول یا افسانے میں کردار کی حیثیت سے داخل ہو جائے اور بطور، راوی کہانی بیان کرے، وہاں بھی وہ مصنف نہیں بلکہ راوی یا ایک کردار سمجھا جائے گا۔ ان دونوں صورتوں میں راوی کے وہی اوصاف و امتیازات ہوں گے جو واحد غائب اور متکلم کے لیے لازمی قرار دیے گئے ہیں۔ 

اس نوع کی کئی مثالیں اردو فکشن میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ مثلاً ، ناول امراؤ جان ادا میں رسوا بحیثیت کردار اس میں شامل ہے، وہ صرف مرزا محمد ہادی رسوا ہیں امراؤ جان ادا کا مصنف نہیں ہے۔ اس طرح منٹوکا افسانہ ،بابو گوپی ناتھ، میں منٹو نے اپنے اصل نام کے ساتھ ایک کردار ادا کیا ہے۔ 

علاوہ ازیں اسد محمد خاں کے افسانوں میں بھی اسی نوع کے کردار دیکھے جاسکتے ہیں۔ جب اس طرح کی تحریروں کا محاکمہ کیا جاتا ہے تو فکشن کی رسمیات اور تنقیدی اصولوں کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ فکشن کے اصول وضوابط اس امر کے متقاضی ہوتے ہیں کہ انھیں کسی حقیقی کردار یا حقیقی واقعہ پر مبنی بیانیہ کے بجائے فکشن کے متن کو ذہن میں رکھ کر پڑھنے اور اس کی تعبیر و تفہیم کرنے کی کوشش کی جائے۔

واقعہ خارجی ہو یا داخلی بذات خود اس وقت تک معنی برآمد نہیں کر سکتا جب تک اس کا اظہار نہ کیا جائے ، اس میں معنی کی دریافت بیانیہ کی وساطت سے نمو پذیر ہوتی ہے۔ گو یا واقعہ بیان کا محتاج ہوتا ہے۔ اور راوی، واقعے اور بیان کے مابین ایک لسانی ذریعہ ترسیل ( میڈیم ) کی حیثیت سے نمودار ہوتا ہے۔

اس کے بیان سے واقعہ کا بیانیہ سماجی ، معاشرتی فکری غرض کوئی بھی صورت اختیار کر سکتا ہے۔ اور وہ جو صورت اختیار کرتا ہے اس کے نتیجے میں راوی کا نقطہ نظر واضع ہوتا جاتا ہے، جس کی روشنی میں وہ واقعہ کو جس زاویے سے دیکھتا اور تجربہ کرتا ہے اپنی ترجیحات سے آمیز کر کے بیان کر دیتا ہے۔

را وی خواہ متکلم ہو یا غائب، کہانی اور واقعات کی نوعیتوں اور تقاضوں کو ملحوظ رکھ کر ہی تخلیق کیا جاتا ہے۔ یعنی اس کے انتخاب یا تشکیل میں جنس عمر تعلیم ، زبان، ثقافتی ، سماجی و معاشرتی معیار و اقدار وغیرہ کا خاص خیال کیا جاتا ہے۔

اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فکشن کا بیانیہ اپنے راوی کے اوصاف اور اس کے نقطۂ نظر سے متصل ہوتا ہے۔ موضوع و موادخود اس کا متقاضی ہوتا ہے کہ اسے کس کے نقط نظر اور کس کی زبان سے بیان کیا جائے۔ یہی بیانیہ راوی کی صفات اور امتیازات کی دریافت میں قاری کے لیے معاون ثابت ہوتا ہے۔ ہر فکشن نگار مذکورہ نظری مباحث کی متعدد جہات کو اپنی تخلیقات میں برتنے کی کوشش کرتا ہے۔