سید انور ظہیر رہبر
شاعر ، ادیب، افسانہ نویس، کالم و سائنسی مضامین نگار جب قوم، قبیلے یا انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ یا کسی ایک علاقے سے دوسرے علاقے ، ایک مقام سے دوسرے مقام یا ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کرتے ہیں، چاہے اس کی کچھ بھی وجوہات ہوں، وہ اپنی ضرورت کا سامان ضرور ایک جگہ سے دوسری جگہ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ لیکن ان ساز و سامان میں وہ اور بھی کئی خوبصورت نہ نظر آنے والی اشیاء بھی پنے ساتھ لے جاتے ہیں اور وہ ہوتی ہیں ان کا اپنا رہن سہن، اپنی تہذیب و تمدن اور خاص طور پر ان کا پنا ادب، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہاں اپنے قدم مضبوطی سے جما کر ایک نئی بستی آباد کرنے لگتا ہے۔
تاریخ ،ہجرت کے واقعات سے بھری پڑی ہے، جن میں سے کئی ہجرتیں اب تک ہمارے دل و دماغ میں کہیں نہ کہیں اچھے برے تاثرات کے ساتھ موجود ہیں۔ تقسیم ہندو پاک اور پھربنگلا دیش کے وقت بھی ہجرت نے جہاں عام انسانوں پر اپنا اثر چھوڑ اوہیں حساس دل و دماغ کے مالک مصنف، ادیب شعراء پر بھی اپنا بھر پور دار کیا اور ایک لمبے عرصے تک ان کو اسی موضوع پر لکھنے لکھانے میں مصروف رکھا۔
ہجرت سے جس طرح عالمی سیاست اور ملکوں کی جغرافیائی حدود میں تبدیلی رونما ہوئی ، وہیں ادب میں بھی نمایاں تغییرات وقوع پذیر ہوئے اور اردو ادب میں نئے موضوعات، جدید علامت مٹی کی خوشبو، وطن کی یاد ،نئی بستی کے مسائل، وہاں کے حالات، معاشرے کے رموز اور یہاں تک کہ وہاں کے موسم نے بھی اپنی جگہ بنالی۔
ڈاکٹر اشفاق احمد ندوی، اپنی کتاب ’’جدید عربی ادب کے ارتقاء کے ضمن میں مہجری ادباء کی خدمات میں لکھتے ہیں کہ یہ ایک ایسا ادب ہے، جس کی ایک ایک سطر سے خوشبوئے وطن پھوٹتی ہے، وفا پرستی کے نغمے گونجتے ہیں ، فدائیت اور جانثاری کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، جس کا ہر فنکار اپنے میدان تخیل کا شہ سوار ، جس کی ہر تحریر دل پذیر، جس کا ہر اسلوب قاری کے لیے پسندیدہ اور مقبول ہوتاہے۔“
جہاں ایک طرف ہجرت کی سب بڑی وجہ ذہنی اور سیاسی سوچ کے درمیان اختلافات ہیں، وہیں دوسری طرف اقتصادی بحران، لسانیات اور قومیت کے بکھیڑے، یاسیت اور قنوطیت کے مضبوط شکنجے بھی موجود ہیں۔ یہ سارے اسباب و غم شاعر، ادیب اور مصنف کو جھنجوڑ جھنجوڑ کر ایک سے ایک ادب کے شہ پارے لکھواتے ہیں، جس کی مثال اردو ادب کی جدید بستیوں کے سرمایہ ادب و شاعری میں محفوظ ہیں۔
منٹو، کے افسانے اسی مہجری ادب کے بھرپور نمونے ہیں۔ مثال کے طور پر منٹو کا ایک افسانہ ’’کھول دو‘‘ میں بعد کے حالات کا ذکر ہے کہ ہجرت کے بعد لوگوں کے ساتھ کیا ہوا۔ منٹو ساری زندگی انسان کو تلاش کرتا رہا ۔ مشرقی اور مغربی انسان کی غلاظتیں تلاش کرتارہا کہ، انسان کا باطن ظاہر کی طرح صاف شفاف ہے یا نہیں ۔ اس کا موقع آزادی کے بعد ان کو ملا۔
اسی حوالے سے دوسرا نام احمد ندیم قاسمی کا ہے ،ان کا افسانہ ’نیا فرہاد‘ اسی حوالے سے ہے۔ اس کے علاوہ قرۃ العین ’آگ کا دریا‘ عصمت چغتائی (ٹیڑھی لکیر)، راجندرسنگھ بیدی (لاج ونتی)، عبداللہ حسین (اداس نسلیں) اور کئی بڑے نام ادب کی دنیا میں اسی نسبت سے جانے جاتے ہیں۔
فسادات کے بعد سب سے بڑا رجحان ترقی پسند سوچ سے تعلق رکھتا ہے۔ فسادات کے بعد جو معاشرہ تشکیل پایا اس کی عکاسی ترقی پسند سوچ رکھنے والے افسانہ نگاروں نے کی۔ ہجرت کی ایک بڑی وجہ وہ زباں بندی بھی ہے جو برسوں سے شروع ہو کر آج بھی جاری ہے اور مہجری ادب کی تخلیق متواتر کرارہی اوراردو ادب کی نئی نئی بستیاں بسا رہی ہے۔
اردو کے عظیم شاعر فیض احمد فیض کو ایوب خان کے مارشل لانے ہجرت کرنے پر مجبور کیا تو ان کا قلم شعلہ بن گیا اور جلاوطنی میں ایسی ایسی نظمیں وغزلیں، چنگاری بن کر نکلیں جو مہجری ادب کے طور کبھی بھی نہیں بھلائی جاسکتیں۔
معروف شاعر احمد فراز نے بھی لندن میں رہ کر مہجری شعری سخن تخلیق کیا۔
یہ سلسلہ ادب اردو زبان کی تاریخ کے ساتھ چلتا ہوا آج تک بیرون ممالک گامزن ہے اب بھی کئی مشہور ناموں کے علاوہ بھی بہت سے ادیب و شاعر اپنے وطن چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں اردو ادب کی نئی بستیاں بسا رہے ہیں۔
امریکہ، کینیڈا، ساؤتھ افریقہ خلیجی ممالک اور یورپ کے خطوں میں جہاں جہاں اردو کے شیدا ہجرت کر کے پہنچے وہاں وہاں اردو کی نئی نئی بستیاں جنم لے رہی ہیں۔ انگلستان میں اُردو بولنے، سمجھنے اور لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے،جب کہ دوسری بڑی تعداد جرمنی میں مقیم ہے۔
اس زبان سے جڑی کمیونٹی کا ایک بڑا حصہ شہر برلن ، دریائے مائین کے کنارے آباد ،تجارتی شہر فرینکفرٹ اور اس کے گردونواح میں مقیم ہے۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال کے شہر کی ہائڈل برگ یونیورسٹی ، ائر فورٹ اور ہمبرگ یونیورسٹی میں اردو کی نا صرف تعلیم کا انتظام ہے بلکہ تحقیق اور تالیف کے بھی شعبے موجود ہیں، جس کی وجہ سے اردو سیکھنے اور عملی طور پر زبان کے استعمال ہونے کی بابت یہ شہر جرمنی میں اردو کے لسانی مراکز مانے جاتے ہیں۔
مہجری ادب کے پھیلاؤ کے لیے جو چیز سب سے اہم ہے وہ نئی نسل میں اردو کی تعلیم کی طرف توجہ دلانا اور انھیں اردوزبان کی تعلیم دینا ہے۔ اس سلسلے میں برلن یو نیورسٹی سمیت مختلف اسکولوں میں اردو کی تعلیم دی جا رہی ہے۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ ان جگہوں میں نہ صرف جرمن بلکہ ہجرت کر کے آنے والے خاندان کی نئی نسل بھی اردو سیکھ رہی ہے ۔ کیونکہ زبان سیکھے بغیر اس کے ادب کو جاننا اور آگے بڑھانا ناممکن ہے۔
اردو سیکھنے والے ہندوستان اور پاکستان کے تہذیب و تمدن اور معاشرے کو جاننے کا شوق رکھتے ہیں، جو پاکستان یا ہندوستان میں کئی سالوں کے لیے ملازمت کی غرض سے جاتے ہیں۔ اردو کی نئی بستی میں صرف اردو بولنے والوں کے بچے ہی نہیں ہیں بلکہ وہ بھی ہیں جن کی مادری زبان جرمن، فرانسیسی یا اطالوی ہے۔
مصنف، شاعر اور شاعرات کی کافی بڑی تعداد مہجری ادب کو پروان چڑھا رہے ہیں، جن میں برلن سمیت دیگر شہروں میں کئی بڑے نام موجود ہیں۔ یہ لوگ اپنے ادب کا نام روشن کر رہے ہیں ، جن میں عارف نقوی علی حید روفا، طاہرہ رباب عشرت معین سیما سرور غزالی ، حنیف تمنا، اور کئی نئے آنے والے افراد نے اردو ادب و شاعری میں اپنی پہچان کروائی ہے اور اپنی تخلیقات کو کتابی شکل میں محفوظ کیا ہے۔
روس کی یونیورسٹی کی ڈاکٹر لیڈ میلا نے ایک اردو کا نفرنس میں کہا تھا کہ،
’’مجھے اردو سے محبت ہے اور میں اس کے عشق میں ہر اس شہر اور مقام کی سیر کو نکل کھڑی ہوتی ہوں ، جہاں اردو کی نئی بستیاں جنم لے رہی ہیں‘‘۔
ڈاکٹرلیڈ میلا کی اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو اور اردو کے مہجری ادب کا یہ سفر جاری وساری ہے اور شاید آئندہ بھی یونہی جاری وساری رہے گا۔
……فیض احمد فیض……
یہاں سے شہر کو دیکھو تو حلقہ در حلقہ
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہر ایک راہ گزر گردش اسیراں ہے
نہ سنگ میل نہ منزل نہ مخلصی کہ سبیل
جو کوئی تیز چلے رہ تو پوچھتا ہے خیال
کہ ٹوکنے کوئی للکار کیوں نہیں آئی
جو کوئی ہاتھ ہلائے تو وہم کو ہے سوال
کوئی چھنک کوئی جھنکار کیوں نہیں آئی
یہاں سے شہر کو دیکھو تو ساری خلقت میں
نہ کوئی صاحب تمکیں نہ کوئی والئ ہوش
ہر ایک مرد جواں مجرم رسن بہ گلو
ہر اک حسینۂ رعنا، کنیز حلقہ بگوش
جو سائے دور چراغوں کے گرد لرزاں ہیں
نہ جانے محفل غم ہے کہ بزم جام و سبو
جو رنگ ہر در و دیوار پر پریشاں ہیں
یہاں سے کچھ نہیں کھلتا یہ پھول ہیں کہ لہو
احمد فراز
میں کہ دو روز کا مہمان ترے شہر میں تھا
اب چلا ہوں تو کوئی فیصلہ کر بھی نہ سکا
زندگی کی یہ گھڑی ٹوٹتا پل ہو جیسے
کہ ٹھہر بھی نہ سکوں اور گزر بھی نہ سکوں
مہرباں ہیں تری آنکھیں مگر اے مونس جاں
ان سے ہر زخم تمنا تو نہیں بھر سکتا
ایسی بے نام مسافت ہو تو منزل کیسی
کوئی بستی ہو بسیرا ہی نہیں کر سکتا
ایک مدت ہوئی لیلائے وطن سے بچھڑے
اب بھی رستے ہیں مگر زخم پرانے میرے
جب سے صرصر مرے گلشن میں چلی ہے تب سے
برگ آوارہ کی مانند ٹھکانے میرے
آج اس شہر کل اس شہر کا رستہ لینا
ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے
یہ سفر اتنا مسلسل ہے کہ تھک ہار کے بھی
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
تو بھی ایسا ہی دل آرام شجر ہے جس نے
مجھ کو اس دشت قیامت سے بچائے رکھا
ایک آشفتہ سر و آبلہ پا کی خاطر
کبھی زلفوں کبھی پلکوں کو بچھائے رکھا
دکھ تو ہر وقت تعاقب میں رہا کرتے ہیں
یوں پناہوں میں کہاں تک کوئی رہ سکتا ہے
کب تلک ریت کی دیوار سنبھالے کوئی
وہ تھکن ہے کہ میرا جسم بھی ڈھ سکتا ہے
اجنبی لوگ نئے لوگ پرائی گلیاں
زندگی ایسے قرائن میں کٹے گی کیسے
تیری چاہت بھی مقدس تیری قربت بھی بہشت
دیس پر دیس کی تفریق گھٹے گی کیسے
ناگزیر آج ہوا جیسے بچھڑنا اپنا
کل کسی روز ملاقات بھی امکان میں ہے
میں یہ پیراہن جاں کیسے بدل سکتا ہوں
کہ ترا ہاتھ میرے دل کے گریبان میں ہے