شہر کراچی کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ چند روزکی بارشوںسے پورے شہر کی سڑکیں اور انفرا سٹرکچر مزیدتباہ ہو گیا ہے ۔کراچی جو کہ منی پاکستان بھی ہے ایک ایسا شہر ہے جس کے ساتھ ہر دور میں نا انصافی برتی گئی۔ کبھی اس کا اسٹیٹس جو کہ پاکستان کا دارالحکومت کا تھا وہ چھینا گیا، کبھی اس میں لسانیت کی آگ بھڑکا کر معصوم عوام کا قتل عام کیا گیا، کبھی یہاں دہشت گردی کی کارروائیاں کروائی گئیں جس میں عام لوگوں پر فائرنگ اور بم دھماکے شامل تھے۔ ہمیشہ سےیہاں تمام شہروں سے زیادہ ٹیکس لیاگیا اورجبکہ سب سے زیادہ بجلی کے نرخ بھی کراچی میں ہی ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی جس کو روشنیوںکا جگمگاتا شہر کہا جاتا تھا اب کچرا کنڈی میں تبدیل ہو گیا ہے۔اس صورتحال کی سندھ حکومت اور کراچی پر حکمرانی کرنے والی جماعتیں سب ذمہ دار ہیں۔ سب ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ سابقہ 30سالہ دور میں ذاتی مفادات کیلئے ہرادارے کو سندھ حکومت کے ما تحت کر دیا گیا۔ صوبائی حکومت نے تو سندھ کے دیگرشہروں کے انفراسٹرکچر پر کوئی کام نہیں کیا بلکہ اس عرصے میں تو وہ بھی کھنڈرات میں تبدیل ہوتےرہے ۔شہر قائدکی بر بادی کے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ذمہ دار ہیں، عدلیہ کی طرف سے بھی کوئی سو موٹو ایکشن نہیں لیا جاتا جس سے شہر کے باسی اپنے آپ کو غیر محفوظ اور تنہا سمجھ رہے ہیں۔ سونے پر سہاگہ کے الیکٹرک والوں کے ناجائز بجلی کے نرخ اور زائدبل تو ایک طرف، بجلی کے کھمبوں کو ارتھ وائروں کو نہ لگانے سے اب تک 50سے زائد مظلوم افراد کی ناگہانی اموات ہو گئیں نہ عدلیہ نے اس طرف توجہ دی ،نہ سندھ حکومت نے کوئی کارروائی کی ہے۔
اس شہر کو درجنوں اداروں نے آپس میں بانٹ رکھا ہے اور سارا ٹیکس اور بجٹ کا حصہ جو مرکز سے ملتا ہے، سب مل کر مک مکا کر لیتے ہیں۔ البتہ تمام ٹیکس سندھ حکومت کے اکائونٹس میں جمع ہو تا ہے۔ مگر یہ لاوارث شہر یتیموں کی طرح دیگر صوبوں سے بالکل مختلف انداز میں تڑپتا رہتا ہے۔ 70فیصد سے زائد ٹیکس دینے والا خود مرکز اور صوبائی حکومتوں کے درمیان فٹ بال بنا ہوا ہے ۔کو ئی اس سے ہمدردی تک نہیں جتاتا۔ ستم ظریفی تو دیکھئے 3صدر بالتر تیب آصف علی زرداری، ممنون حسین اور عارف علوی کا تعلق خوش قسمتی سے کراچی سے تھا۔ دیگر صوبوں اور مرکز میں نیلی پیلی ٹرینیں ، بس، پل، سڑکیں ،ہائی ویز بن چکے ہیں مگر کراچی کے ابھی تک ٹرانسپورٹ کے مسائل ہی حل نہیں ہوئے۔ ان 3صدورنے ایک مرتبہ بھی 15سال میں کراچی کی ترقی کیلئے کوئی آواز نہیں اٹھائی الٹا اس روشنیوں کے شہر کو اندھیروں ،ٹوٹے پھوٹے کھنڈرات میں تبدیل ہونے دیا۔ اب توقومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان یونس خان بھی کراچی کے انفر اسٹرکچر سے پریشان ہو گئے۔ یونس خان کا کہنا تھا کہ شہر کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے اور ایسا لگتا ہے جیسے ہم موہنجودڑو میں رہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی روشنیوں کا شہر تھا، سڑکیں ماضی میں بہتر تھیں اب شہر میں ٹریفک کے نظام کا برا حال ہے، آج سڑک بنتی ہے دوسرے دن پھر کھود دی جاتی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شہری بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتے، پان گٹکا کھاتے ہوئے سوچیں کہ بچے دیکھ رہے ہیں۔ میرے خیال میں اگر کراچی والوں سے ریفرنڈم کروائیں کہ وہ وفاق کے کنٹرول میں جانا چاہیں گے تو سندھ حکومت کراچی کے 5فیصد بھی ووٹ نہیں لے سکے گی، اس کی وجہ سندھ حکومت کا غلط رویہ ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ اس وقت پورےسندھ میں امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے ۔سندھ کے کئی ایسے علاقے ہیں جہاں دن دہاڑے اغوا برائے تاوان کی وارداتیں ہورہی ہیں ۔خاص طور پر کچے کے علاقے میں ڈاکو دن دہاڑے لوگوں کو اغوا کر لیتے ہیں ۔تاجر ہو یا غریب مزدور ،اٹھا کر لے جاتے ہیں اور ان کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں، پھر تاوان کی رقم وصول کرنے کیلئے تشدد کی وڈیوز قریبی رشتے داروں کو بھیج کر تا وان کی رقم وصول کرتے ہیں۔ ایک واقعہ میں کراچی کے ایک مغوی نے کچھ رقم ادا کی اور بقیہ رقم کراچی کے علاقے لانڈھی کے ایک بینک میں جمع کرائی، وہاں کچے کے ڈاکوئوں کے ایک ساتھی کا اکائونٹ تھا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اغوا برائے تاوان کا کاروبار کتنا منظم اور آسان ہو چکا ہے ۔پولیس کا نیٹ ورک بھی عملاََختم ہو چکا ہے۔ دوسری طرف کراچی میں اسٹریٹ کرائم بھی عروج پر ہیں۔ جبکہ گزشتہ دنوں اربوں روپے کی پانی کی چوری پکڑنے والے واٹر کارپوریشن کے افسر کو عہدے سے معطل کرنے پر واٹر کارپوریشن افسران میں بے چینی پائی جا تی ہے۔ بتایاگیا ہے کہ مذکورہ افسر کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ تفصیلات کے مطابق واٹر کارپوریشن ریونیو ڈپارٹمنٹ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹرمرزا اخلاق بیگ نے چند دن قبل کراچی کی تاریخ کی بڑی شمار ہو نے والی پانی کی چوری پکڑی تھی جس کی مالیت اربوں روپے بتائی جاتی ہے جس سے پانی چوری کرنے والا پوراسسٹم ہل گیا اور پانی چور مافیا میں ہلچل مچ گئی، بتایا گیا ہے کہ مرکزی لائنوں کے ذریعے 100 سے زائد غیر قانونی کنکشنز لیے گئے تھے ۔
قارئین !اگر چیف منسٹر پنجاب مریم نواز اپنے 5ماہ کے دورانئے میں غریبوں کیلئے ایک لاکھ گھر،کسانوں کیلئے زرعی سہولیات، کھیلوں کے میدان، نوجوانوں کیلئے اسکالر شپ، کڈنی لیور کے مخصوص یونٹ، ایئر ایمبولینس سروس، آئی ٹی سینٹر، 2ماہ کیلئے بجلی بلوں میں رعایت اور سیف سٹی جیسے منصوبے لا سکتی ہیں تو چیف منسٹر سندھ جو گزشتہ 15سال سے حکومت کر رہے ہیں وہ سندھ کے عوام کیلئے کیوں کچھ نہیں کر سکتے۔