یہ 29ستمبر 1993ء کا ذکر ہے۔ صبح تقریباً سوا 10بجے ضلع خانیوال کی تحصیل، میاں چُنّوں میں سب کچھ معمول کے مطابق تھا کہ اچانک ایک خبر شہر میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا شہر بند ہو گیا۔ یہ خبر پنجاب کے سابق وزیرِ اعلیٰ، غلام حیدر وائیں کے اندوہ ناک قتل کی تھی، جنہیں شہر سے کچھ دُور واقع، موضع نصرت پور کے قریب لوہاراں والی پُل پر انتخابی مُہم کے دوران فائرنگ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔
کم و بیش ہر فرد ہی اس درویش صفت سیاست دان کے بہیمانہ قتل پر افسردہ تھا۔ اس بات سے قطع نظر کہ غلام حیدر وائیں کا قتل سیاسی مخاصمت کا شاخسانہ تھا یا نہیں، وہ ایک ایسے سیاست دان تھے کہ جنہوں نے اپنی اَن تھک محنت کی بہ دولت قومی سیاست میں وہ قابلِ فخر مقام حاصل کیا کہ جو عموماً با اثر خاندانوں کے چشم و چراغ ہی حاصل کر پاتے ہیں۔
1933ء میں مشرقی پنجاب کے شہر، امرت سَر میں پیدا ہونے والے غلام حیدر وائیں اگست 1947ء میں اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ ہجرت کر کے میاں چُنّوں میں آباد ہوئے۔ انہیں لڑکپن ہی سے اخبار بینی کی عادت تھی۔ اُن کے اس شوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہجرت کے سفر کے دوران ایک چھوٹا سا ٹرنک 14سالہ غلام حیدر کے سَر پر موجود رہا، جس میں مختلف اخبارات کے بہت سے پرچے تھے۔ گرچہ وہ بہ امر مجبوری اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہے، تاہم زمانے کی اونچ نیچ نے اُنہیں اس قابل بنا دیا تھا کہ وہ بڑے سے بڑے افسر اور جاگیردار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کیاکرتے تھے۔
ممتاز دانش وَر اور سابق بیوروکریٹ، سیّد شوکت علی شاہ نے ایک معاصر روزنامے میں شایع ہونے والی اپنی تحریر بہ عنوان ’’بااصول غلام حیدر وائیں‘‘ میں ان کا تذکرہ کچھ یوں کیا ہے کہ ’’غلام حیدر وائیں نہ صرف درویش مَنش انسان تھا، بلکہ معاشی طور پر بھی اس کا شمار فقرا کے زمرے میں ہوتا تھا۔ مشرقی پنجاب سے ہجرت کر کے آیا ہوا ایک کٹّر مسلم لیگی، جس کا اپنا کوئی گھر نہ تھا۔‘‘
نوزائیدہ مملکت میں ہجرت کے بعد کچھ عرصہ اپنے سُسر کی آٹے کی چکّی پر بہ طور منشی اور بعد ازاں ایک نجی ادارے میں بہ طور ٹائپسٹ کام کرنے والے غلام حیدر وائیں کا سیاسی کیریئر اُن کی قابلِ رشک جدوجہد کی غمازی کرتا ہے۔ وہ سب سے پہلے صدر محمّد ایّوب خان کے دَور حکومت میں بی ڈی ممبر منتخب ہوئے اور پھر یونین کاؤنسل کے وائس چیئرمین اور نائب صدر مارکیٹ کمیٹی، میاں چُنّوں بنے۔
بلدیاتی سیاست کے دنوں میں انہوں نے اپنے علاقے میں بے شمار ترقّیاتی کام کروائے، جن پر اہلِ علاقہ نے انہیں مزید پانچ برس کے لیے میونسپل کمیٹی کا وائس چیئرمین منتخب کر لیا۔ یحییٰ خان کے دَور میں بلدیاتی اداروں کی بساط لپیٹ دی گئی، تو غلام حیدر وائیں کی حکمتِ عملی سے میاں چُنّوں میں پاکستان مسلم لیگ (قیوم)، پاکستان مسلم لیگ (کائونسل) اور پاکستان مسلم لیگ (کنونشن) کے انضمام سے متّحدہ مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا اور اتفاقِ رائے سے پنجاب میں خواجہ محمد صفدر کو متّحدہ مسلم لیگ کا صدر اور غلام حیدر وائیں کو جنرل سیکرٹری نام زد کیا گیا۔
ذوالفقار علی بُھٹّو کے دور ِاقتدار میں سیاسی جدوجہد کے نتیجے میں غلام حیدر وائیں پر ’’پمفلٹ کیس‘‘ بنایا گیا اور ٹیلی فون کے تار چوری کرنے کے الزامات پر مقدّمات درج کیے گئے۔ ان الزامات کے نتیجے میں وہ 16ایم پی او کے تحت متعدّد بار نظر بند بھی ہوئے، لیکن مسلم لیگ کے ساتھ وابستگی برقرار رہی۔ مارچ 1977ء کے عام انتخابات میں غلام حیدر وائیں نے میاں چُنّوں سے قومی اسمبلی کی نشست پر 55ہزار ووٹ حاصل کیے۔
تاہم ان انتخابات میں مبیّنہ دھاندلی پر پاکستان قومی اتحاد کی مُلک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز ہوا، تو بُھٹّو حکومت نے حزبِ اختلاف کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ انہیں بھی گرفتار کر لیا اوربعدازاں 5جولائی کو جنرل محمّد ضیاء الحق نے ’’آپریشن فیئر پلے‘‘ کے تحت جب بُھٹّو حکومت کا تختہ الٹا، تو غلام حیدر وائیں کو جیل سے رہائی نصیب ہوئی۔ جنرل ضیاء الحق ہی کے دَور میں 1982ء میں غلام حیدر وائیں مجلسِ شوریٰ کے رکن نام زد ہوئے اور فروری 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں رُکنِ صوبائی اسمبلی منتخب ہو کر پنجاب کابینہ میں وزیر صنعت، معدنیات و منصوبہ بندی اور وزیر تعلیم کے طور پر خدمات سر انجام دیں۔
مئی 1988ء میں صدر ضیاء الحق نے آئین کے آرٹیکل 58(2) بی کے تحت وزیرِ اعظم، محمد خان جونیجو کی حکومت برطرف کی، تو پنجاب میں میاں محمد نواز شریف کی زیرِ قیادت نگراں حکومت قائم کی گئی، تاہم غلام حیدر وائیں نے یہ کہہ کر نگراں وزیر بننے سے انکار کر دیا کہ ’’جنرل ضیاء الحق نے جونیجو صاحب کی نہیں بلکہ مسلم لیگ کی حکومت ختم کی ہے، لہٰذا مُجھے ان کے زیرِ سایہ کوئی حکومتی عُہدہ قبول نہیں۔‘‘ نومبر 1988ء کے عام انتخابات میں انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار کو شکست دی اور پھر قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کے طور پر توانا کردار ادا کیا۔
اگست 1990ء میں صدر غلام اسحاق خان نے وزیرِ اعظم، بے نظیر بُھٹّو کی حکومت برطرف کی، تو غلام حیدر وائیں کو پنجاب کا نگراں وزیرِ اعلیٰ بنایا گیا۔ اکتوبر 1990ء کے عام انتخابات میں انہوں نے اسلامی جمہوری اتحاد کے ٹکٹ پر قومی و صوبائی اسمبلی کی دونوں نشستیں جیت لیں۔ صوبائی اسمبلی کی جیتی گئی نشست میاں چُنّوں کے ممتاز جاگیردار مہر صلابت سنپال کی آبائی نشست تھی۔
بعد ازاں، پارٹی فیصلے کے مطابق انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست چھوڑ دی اور8 نومبر 1990ء کو پنجاب اسمبلی میں 216ووٹ لے کر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی وزارتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالا، جب کہ ان کے مدِمقابل پاکستان پیپلز پارٹی کے اکرم ربانی کو صرف 13ووٹ ملے۔ غلام حیدر وائیں کا اتنے بڑے منصب تک پہنچنا یقینا ایک اچنبھے کی بات تھی۔
تاہم، وزیرِ اعلیٰ بن کر بھی اُن کی روایتی سادگی اور درویشی برقرار رہی۔ اس حوالے سے سیّد شوکت علی شاہ لکھتے ہیں کہ ’’اس سے زیادہ ایمان دار اور غریب وزیرِ اعلیٰ، پنجاب کی تاریخ میں کبھی نہیں آیا۔ اس کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران اگر بُھولے سے کوئی ملاقاتی آ جاتا، تو اُس کے پاس اُسے بٹھانے کی جگہ نہ ہوتی۔ مسلم لیگ ہائوس کو کھول کر رُوکھی پھیکی آؤ بھگت کی جاتی۔ اس کے دفتر کے دروازے ہر آدمی کے لیے ہمہ وقت کُھلے رہتے۔ رحم، عفوودرگزر اور برداشت اُس کی سرشت میں کُوٹ کُوٹ کر بَھرے ہوئے تھے۔‘‘
سیّد شوکت علی شاہ نے غلام حیدر وائیں کی قُوّتِ برداشت اور تحمّل مزاجی کا ایک واقعہ بھی بیان کیا ہے کہ ’’غلام حیدر وائیں کےوزیرِ اعلیٰ بننے سے پہلے سکندر بوسن نے اُسے کسی بات پر تھپّڑ مارا تھا، تو وائیں کے وزیرِ اعلیٰ بننے کے بعد وہ گھبرایا ہوا میرے پاس آیا اور بولا، ’’اب مجھ سے انتقام لے گا، آپ معافی دلوا دیں۔‘‘ مَیں نے وائیں صاحب سے ذکر کیا، تو بولے، ’’مَیں نے تو اُسے اُسی لمحے معاف کر دیا تھا، اب کس بات سے ڈر رہا ہے؟‘‘ بہ حیثیتِ وزیر اعلیٰ غلام حیدر وائیں اپنے سکیوریٹی انتظامات سے ہمیشہ تنگ رہتے۔ اُن کا خیال تھا کہ اس سے دُوری بڑھتی ہے۔ اگر پولیس کے اعلیٰ حُکّام ان سے سیکیوریٹی سے متعلق اصرار کرتے، تو وہ اپنے روایتی انداز میں کہتے کہ ’’میکوں کوئی بے وقوف ای گولی مریسی، گولی دی قیمت میڈی جان کولوں زیادہ اے‘‘ (کوئی بے وقوف ہی مُجھے گولی مارے گا کہ گولی کی قیمت میری جان سے زیادہ ہے)۔
18 اپریل 1993ء کو صدر غلام اسحاق خان نے وزیرِ اعظم، میاں محمّد نواز شریف کی حکومت برطرف کی، تو سات روز بعد 25 اپریل کو غلام حیدر وائیں کو بھی پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سے تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے چلتا کر دیا گیا اور اسپیکر پنجاب اسمبلی، میاں منظور احمد وٹّو کم و بیش اپنے ڈیڑھ درجن اراکینِ پنجاب اسمبلی، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے منحرف اراکینِ اسمبلی کے ذریعے اپنی حکومت بنانے میں کام یاب ہو گئے۔
واضح رہے کہ پنجاب کی سیاسی تاریخ میں غلام حیدر وائیں وہ واحد وزیرِ اعلیٰ گزرے ہیں کہ جنہیں تحریکِ عدم اعتماد کے ذریعے اپنے عُہدے سے ہٹایا گیا۔ بہ طور وزیرِ اعلیٰ پنجاب غلام حیدر وائیں نے صوبے بَھر میں سڑکوں کا جال بچھایا اور ٹیلی فون، بجلی اور صحتِ عامہ کی سہولتیں عام کیں۔ انہوں نے فروغِ تعلیم کے سلسلے میں تعلیمی اداروں کے لیے متعدد مراعات کا اعلان کیا اور میاں چُنّوں میں بالخصوص خواتین کے لیے اس قدر تعلیمی اداروں کی بنیاد رکھی کہ انہیں ’’سر سیّدِ میاں چُنّوں‘‘ کے لقب سے یاد کیا جانے لگا۔ ان کا ایک اور کارنامہ پنجاب کی تاریخ میں پہلی بار صوبے بَھر کی نہروں کی صفائی کا عمل تھا۔
اس ’’بَھل صفائی مُہم‘‘ میں وہ خود شریک ہوتے، جب کہ صوبے بَھر میں اس مُہم کا یہ اثر ہوا کہ پانی ٹیل تک پہنچنے لگا اور خُشک اراضی سیراب ہوئی، جس کے معیشت پر خوش گوار اثرات مرتّب ہوئے۔ اپنی وزارتِ اعلیٰ کے دَور میں غلام حیدر وائیں نے اردو زبان کی ترویج و اشاعت کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے اور اسے حقیقی معنوں میں صوبے کی دفتری زبان بنا دیا۔ اس حوالے سے سیّد شوکت علی شاہ لکھتے ہیں کہ ’’وائیں صاحب اردو زبان سے محبّت کرتے تھے اور اسے قومی زبان سمجھتے تھے۔ انہوں نے ایک حُکم نامہ جاری کیا، جس کی رُو سے تمام سمریاں اُردو میں بھیجنے کا کہا گیا۔ اس پر سیکریٹریٹ کی غلام گردشوں میں صدائے احتجاج بلند ہوئی اور انہیں ’’اَن پڑھ وزیراعلیٰ‘‘ کہا گیا۔
ان تمام ہرزہ سرائیوں کا اس مَردِ قلندر پر کیا اثر ہونا تھا۔ جتنا عرصہ وہ وزیر اعلیٰ رہے، سمریاں قومی زبان ہی میں لکھی گئیں۔‘‘ یہی نہیں، بلکہ جذبۂ حُبّ الوطنی سے سرشار غلام حیدر وائیں نے اپنے ملّی جذبات کو عملی شکل دینے کے لیے ’’نظریۂ پاکستان ٹرسٹ‘‘، ’’تحریکِ پاکستان ورکرز ٹرسٹ‘‘ اور ’’ایوانِ کارکنان ٹرسٹ‘‘ کی بنیاد رکھی اور انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کے وقت پاکستان آنے والے مہاجرین کے پڑائو کے مقام پر ’’بابِ پاکستان‘‘ کا سنگِ بنیاد رکھ کر پاکستان سے اپنی بے پایاں محبت کا اظہار کیا۔ غلام حیدر وائیں کی شخصیت اور سیاسی جدوجہد کے حوالے سے محمد رفیق عالم (مرحوم) اپنی کتاب، ’’غلام حیدر وائیں (شہید)، عہد سے لحد تک‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’غلام حیدر وائیں نے عام لوگوں کو حُکم رانوں سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا سکھلایا۔‘‘
29 ستمبر 1993ء کی صبح 9بجے غلام حیدر وائیں اپنے بھانجے، خالد محمود اور دو قریبی دوستوں، اظہر حسین اور شاہد شفیق شیخ کے ساتھ گاڑی پر انتخابی مُہم کے سلسلے میں گھر سے نکلے۔ گاڑی ان کا دیرینہ ڈرائیور، محمّد عاشق چلا رہا تھا۔ جب گاڑی مٹاوالی بھینی پہنچی، تو پُلیا کے ایک طرف گہرا گڑھا نظر آیا۔ ڈرائیور نے گاڑی روک لی۔
گاڑی رُکتے ہی جائے وقوع کے قریب ویران جگہ پر گرے درختوں کے عقب سے مسلّح افراد برآمد ہوئے اور اُن میں سے ایک نے، جس کا نام خالد محمود نے ایف آئی آر میں محمد حیات درج کروایا، کلہاڑی کے وار سے اُس طرف سے گاڑی کے شیشے توڑے، جس طرف غلام حیدر وائیں بیٹھے ہوئے تھے۔ پھر زمان خان نامی مسلّح شخص نے غلام حیدر وائیں کی چھاتی پر پستول سے فائر کیا۔
اسی اثنا دیگر مسلّح ملزمان نے گاڑی میں بیٹھے باقی افراد کو زبردستی باہر نکالا۔ اس دوران شاہد شفیق نے اپنا پستول نکالنے کی کوشش کی، تو ملزمان نے وہ پسٹل چھین لی اور زخمی غلام حیدر وائیں کو گاڑی سے باہر نکال کر اُن پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، جس کے نتیجے میں وہ موقعے پر جاں بحق ہو گئے۔ اس موقعے پر سفّاک مسلّح ملزمان نے نعش کے گرد بھنگڑا ڈال کر ہوائی فائرنگ کرتے ہوئے سیاسی نعرے لگائے اور جاتے ہوئے گاڑی کے تین ٹائر بھی ناکارہ کر دیے اور پھر اپنی گاڑی میں بیٹھ کر فرار ہو گئے۔
بعد ازاں، اُن کے بھانجے، خالد محمود نے ملزمان کے خلاف ضابطہ فوج داری کی دفعات کے تحت واقعے کا مقدّمہ درج کروایا۔ غلام حیدر وائیں کے قتل کے الزام میں 3ملزمان گرفتار کیے گئے تھے، جن میں سے دو ملزمان، حیات اور اقبال کو 1996ء میں بری کر دیا گیا، لیکن ایک ملزم، زمان کو پھانسی کی سزا سُنائی گئی، جس کے خلاف اپیلز ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے بعد صدرِ پاکستان، سیّد ممنون حسین کو بھی کی گئیں، لیکن تمام کی تمام خارج کر دی گئیں اور بالآخر میاں غلام حیدر وائیں کے قتل کے 22سال بعد 15 اکتوبر 2015ء کو ان کے قاتل، زمان کو سینٹرل جیل، ملتان میں پھانسی دے دی گئی۔ سچ تو یہ ہے کہ سیاسی میدان میں غلام حیدر وائیں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ رکھنے والے انہیں اپنے راستے سے تو ہٹانے میں کام یاب ہو گئے، لیکن پنجاب کا یہ درویش صفت سیاست دان لوگوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔