آپ نے ٹارزن کا نام ضرور سنا ہوگا۔ اگر نہیں سنا ہے تو پھر یہ بہت افسوس ناک بات ہے۔ اسکا مطلب یہ ہوا کہ آپ کھوئے ہوئے، غافل اور مستغرق رہتے ہیں۔ آپ کے اردگرد کیا ہو رہا ہے، کیسے کیسے گل کھلائے جارہے ہیں، آپ نہیں جانتے۔ یا پھر آپ بہت چھوٹے ہیں۔ ننھے مُنے ہیں، علم اور ابلاغ کے سنہری دور کے بعد اس دلفریب دنیا میں تشریف لے آئے ہیں۔ دیر سے اس دنیا میں آنے کا ملال آپ کو اسلئے بھی ہو رہا ہوگا، کیونکہ کھانے کیلئے اپ کو پکی پکائی روٹی مل رہی ہے۔ آپ کو آٹا گوندھنے کی زحمت اٹھانی نہیں پڑتی ہوگی۔ میں جس دور کی بات کررہا ہوں، اس دور میں تب رنگین ٹیلیویژن، فون کے بعد موبائل فون ایجاد کرنے کی سعی ہو رہی تھی۔ دنیا میں کچھ بھی اچانک، آنکھ جھپکتے ایجاد نہیں ہوتا۔ تیر کمان کو مشین گن اور کلاشنکوف بننے میں برسہا برس لگ جاتے ہیں۔ مقصد وہی رہتا ہے۔ فاصلے سے دشمن کو ٹھکانے لگانا۔ ہمارے دور میں ٹارزن کے قصے کہانیاں، اسکیچ کے ساتھ اخبارات میں شائع ہوتے تھے۔ ٹارزن کے قصے کہانیوں کیساتھ کیپٹن مارویل اور رابن ہڈ کے قصے کہانیاں بھی اخبارات میں شائع ہوتے تھے۔ مگر جو بات ٹارزن کے قصے کہانیوں میں ہوتی تھی، وہ بات رابن ہڈ اور کیپٹن مارویل کے قصے کہانیوں میں نہیں ہوتی تھی۔ مشہور تھا کہ پڑھنے والے صبح سویرے اخبارات میں شہ سرخیاں پڑھنے سے پہلے ٹارزن کی قسط وار کہانیاں پڑھتے تھے۔قصے کہانیوں والا ٹارزن آپ کی اور میری طرح آدمی ہوتا تھا۔ مگر وہ سوٹ بوٹ اور نیکٹائی نہیں لگاتا تھا۔ وہ صرف جانگیا پہنتا تھا۔ چونکہ ٹارزن جنگلوں کا باسی تھا اور کسی دفتر میں سرکاری افسر لگا ہوا نہیں تھا، اسلئے وہ ایک جانگیے پر اکتفا کرتا تھا اور سوٹ بوٹ، کوٹ پہن کر اور ٹائی لگا کر افسر یعنی بیوروکریٹ نظر آنے کی کوشش نہیں کرتا تھا۔ وہ کمزور اور ناتواں جانوروں کی حفاظت کرتا تھا۔ چھوٹے موٹے جانوروں کو خونخوار جانور کے قہر سے بچا تھا۔ شیروں، چیتوں اور مگرمچھوں سے لڑ سکتا تھا۔ اسلئے کمزور اور ناتواں جانوروں میں مقبول تھا۔ بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر ٹارزن ناپید ہوتے جارہے ہیں۔ سنا ہے کہ وہ مائیں مر گئی ہیں جو ٹارزن کو جنم دیتی تھیں۔ اب تو شاذونادر ہی ٹارزن دکھائی دیتے ہیں۔میں جس ٹارزن کا قصہ آپ کو سنا رہا ہوں، وہ ٹارزن سجن بےپروا کے نام سے مشہور تھا۔ ٹارزن کسی کی پروا نہیں کرتا تھا سوائے اپنی گول مٹول گرل فرینڈ کے۔ اتفاقاً ہمارے پڑوس میں ایک دبلا پتلا، کمزور اور مریل پڑوسی رہتا تھا۔ اس کا نام سجن تھا۔ وہ سب کی پروا کرتا تھا۔ وہ درختوں، بجلی کے کھمبوں اور ڈھکن کے بغیر کھلے ہوئے گٹروں کو بھی احتراماً سلام کرتا تھا۔ اس کے برعکس ٹارزن سوائے اپنی پلپلی گرل فرینڈ کے کسی کی پروا نہیں کرتا تھا لہٰذا لوگوں نے ٹارزن کو سجن بے پروا کے لقب سے نوازا تھا۔ایک مرتبہ نہ جانے کیا ہوا۔ ٹارزن کو بیٹھے بٹھائے سیاستدان بننے کا شوق چرایا۔ دوچار دوستوں سے مشورہ کرنے کے بعد ٹارزن نے ٹارزنی چھوڑ دی اور غریب ہم وطنوں کی خدمت کرنے کا بیڑا اٹھالیا۔ دوستوں نے محسوس کرایا کہ ٹارزن عرف سجن بےپروا سیاست کی س سے بھی واقف نہیں تھا۔ ٹارزن کے پاس دولت کی کمی تو تھی نہیں۔ صلاح مشوروں کے بعد ٹارزن عرف سجن بے پروا نے ایک اشتہاری یعنی ایڈورٹائزنگ فرم کی خدمات حاصل کرلیں۔ وہ بین الاقوامی فرم تھی۔ اُس کا ہیڈ آفس لندن میں تھا، اور اس نے اپنے ذیلی دفاتر افریقی اور ایشیائی ممالک میں کھول رکھے تھے۔ ایڈورٹائزنگ کے پاکستانی دفتر نے سب سے پہلے ٹارزن عرف سجن بےپروا کے لباس کی طرف توجہ دی۔ ٹارزن بضد تھا کہ وہ جانگیے میں الیکشن لڑے گا۔ جانگیے میں اسمبلی کا رخ کرے گا۔ اور جانگیے میں اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت کرے گا اور تقریریں کرے گا۔ ٹارزن عرف سجن بےپروا کا سوچ کا خانہ خالی نہیں تھا۔ ٹارزن کو ایڈورٹائزنگ کے ماہرین کی بات فوراً سمجھ میں آگئی۔ جیسا دیس، ویسا بھیس۔ ٹارزن کے لئے عالیشان سوٹ، بوٹ، قمیص اور ٹائیاں بیرونی ممالک سے منگوائی گئیں۔ جانگیے سے پیچھا چھڑانے کے بعد ٹارزن نے ماہرین کے مشوروں سے سوٹ زیب تن کئے۔ قد آدم آئینے میں اپنا عکس دیکھ کر وہ خود کو پہچان نہ سکا۔ ماہرین آخر کار ٹارزن کو سمجھانے میں کامیاب ہوئے کہ آئینے میں عکس خود ٹارزن کا اپنا تھا۔ کسی چیتے یا گینڈےکا عکس نہیں تھا۔ایڈورٹائزنگ فرم کی ذمے داری تھی بلکہ فرض منصبی تھا کہ وہ ٹارزن عرف سجن بےپروا کو کامیاب سیاستدان بنائے ۔ ادارے نے محسوس کیا کہ تقریر دور کی بات ہے، ٹارزن ٹھیک سے بول نہیں سکتا۔ لہٰذا چن چن کر مکالمہ، گفتگو اور بحث مباحثوں کے ماہرین کو ٹارزن کی تربیت پر لگایا گیا۔ تقریر کا ہنر سکھانے کیلئے ٹارزن کو دنیا کے چیدہ چیدہ تقریر پر عبور رکھنے والے لیڈروں کی تقریریں سنائی گئیں اور دکھائی گئیں ۔ ان میں ہٹلر کی تقریریں سرفہرست تھیں۔دنیا کو دکھانے کیلئے کہ ٹارزن ایک عام چھوٹا موٹا لیڈر نہیں تھا، ایڈورٹائزنگ ایجنسی نے ٹارزن کے لئے پہلی پریس کانفرنس کا اہتمام کیا، کھانے پینے کا زبردست اہتمام کیا گیا تھا جس پریس کانفرنس میں کھانے پینے کا اعلیٰ انتظام رکھا جاتا ہے، وہاں لوگ آسمان سے امڈ آتے ہیں۔ تل دھرنے کی جگہ باقی نہیں بچتی۔ دنیا کو دکھانے کیلئے کہ ٹارزن بہت بڑا سیاسی لیڈر تھا، جان بوجھ کر ٹارزن کو تین گھنٹے دیر سے پریس کانفرنس میں لانے کا بندوبست کیا گیا تھا۔ تین گھنٹہ دیر سے ٹارزن پریس کانفرنس سے خطاب کرنے آیا۔ ٹارزن نے روسٹرم سنبھالا ہی تھا کہ عین اسی وقت پریس کلب پر بموں سے دھاوا بول دیا گیا۔ تعجب کی بات ہے کہ حملے سے کوئی مرا، یا کوئی زخمی تک نہیں ہوا۔ ٹارزن نے ایڈورٹائزنگ ایجنسی سے پوچھا کہ یہ سب کیا تھا؟ منیجر نے مسکراتے ہوئے کہا ’’کل اخبارات میں آپ کے نام نامی اسم گرامی کی شہ سرخیاں چلیں گی۔ ہر دل عزیز پر قاتلانہ حملہ! ٹارزن کا شمار صفحہ اول کے پاکستانی سیاستدانوں میں ہونے لگے گا۔