تربت سے گرفتار خودکش حملہ آور عدیلہ بلوچ نے کہا ہے کہ کچھ لوگوں نے ورغلایا کہ میں خودکش حملے کروں۔
عدیلہ بلوچ نے والدین کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ میں نے ابتدائی تعلیم تربت سے حاصل کی، نرسنگ کا کورس کوئٹہ سے کیا، دہشت گردی کے لیے میری برین واشنگ کی گئی۔
عدیلہ بلوچ نے کہا کہ دہشت گردی کے لیے نوجوانوں کو ورغلایا جارہا ہے، میں غلط راستے پر چل رہی تھی، مجھے بہکایا گیا تھا، میں حکومتِ بلوچستان کی وجہ سے بچ گئی۔
انہوں نے کہا کہ دہشت گرد اپنے مقاصد کے لیے لوگوں کو استعمال کرتے ہیں، سوچا نہیں تھا کہ خودکش دھماکا کرنے سے معصوم لوگوں کی جان جائے گی، لوگوں کو نصیحت کرتی ہوں کہ دہشت گردوں کی باتوں میں نہ آئیں۔
اس موقع پر عدیلہ بلوچ کے والد نے کہا کہ مجھے پتہ چلا کہ میری بیٹی کو ورغلایا گیا ہے، پتہ تھا کہ جنہیں پہاڑوں پر لے جایا جاتا ہے ان کی واپسی نہیں ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ بیٹی کے لاپتہ ہونے پر حکومتِ بلوچستان سے رابطہ کیا، بروقت کارروائی کر کے میری بیٹی کو واپس لایا گیا، لاپتہ افراد کے والدین سرکار کے پاس جائیں، والدین اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھیں۔
اس موقع پر بی اے پی کی رکن صوبائی اسمبلی فرح عظیم شاہ نے کہا کہ ریاست اور حکومت نے ماں ہونے کا ثبوت دیا، ریاست نے عدیلہ اور اس کی فیملی کو قبول کیا ہے۔
فرح عظیم شاہ نے کہا کہ اس لڑائی کو بند کریں جس میں سراسر نقصان بلوچستان کا ہے، جو لوگ پہاڑوں پر ہیں وہ واپسی کا راستہ اختیار کریں۔
انہوں نے کہا کہ جو بھی مدد مانگی جائے گی وہ حکومت دے گی، ریاست کے مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔