اسلام آباد (قاسم عباسی) برطانیہ نے غلط اطلاعات پھیلانے کے خلاف فوری ایکشن لینا شروع کردیا ہے جس سے انگلینڈ اور شمالی انگلینڈ میں رواں ماہ کے شروع میں فسادات ہوئےتھے۔ پاکستان ابھی تک غلط خبروں سے کا رحجان عروج پر ہے خواہ وہ بین الاقوامی نوعیت کی ہوں، مذہبی ہوں یا سیاسی امورسے متعلق ہوں اور پاکستان ان سے نمٹنے میں بھی ناکام رہا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ برطانیہ میں بدامنی پھیلانے والے صحافی کی بریت سے ایک روز قبل پاکستان میں ایک اعلیٰ پولیس اہلکار نے لاہور میں مقیم صحافی کے ملوث ہونے کی تصدیق کی تھی ۔ اس کی بریت ہمارے فوجداری نظام قانون میں موجود خلا کی عکاسی کرتی ہے ۔یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے دونوں فریقین (مدعی اور مدعا علیہ) کے درمیان نفرت انگیز تقریر یا بدنامی کے متعدد کیسز کو برطانیہ کے عدالتی نظام کے تحت حل کیا گیا۔ ناصر بٹ، جو پاکستان مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھتے ہیں، نے پاکستان کے ایک نجی نیوز چینل کے خلاف کیس جیتا، اور زلفی بخاری نے ریحام خان کے خلاف برطانیہ کی عدالتوں میں کامیابی حاصل کی۔ دونوں مدعا علیہان کو بھاری جرمانہ کیا گیا۔زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس نامہ نگار نے درجنوں کیسز کا بھی جائزہ لیا جو کہ جعلی خبروں کے خلاف قومی اخبارات اور ٹیلی ویژن نیوز چینلز کے خلاف سالوں پہلے عدالتوں میں دائر کیے گئے تھے اور جو اب بھی زیر سماعت ہیں۔دی نیوز کی تحقیقات سے انکشاف ہوا کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے گزشتہ پانچ سالوں میں جعلی خبریں پھیلانے پر پاکستان کے مرکزی ٹیلی ویژن نیوز چینلز کو کل 94 شو کاز نوٹس جاری کیے۔جبکہ سوشل میڈیا پر، جنوری سے اب تک پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے فیس بک، ٹویٹر اور یوٹیوب سے 44,000 سے زیادہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس یا پوسٹس کو جعلی خبریں پھیلانے پر ہٹا دیا ہے یا بلاک کیا ہے۔ پی ٹی اے نے مذکورہ پلیٹ فارم سے کل 20,829 غیر قانونی فیس بک پوسٹس اور اکاؤنٹس کو ہٹایا یا بلاک کیا ہے۔ یوٹیوب سے، کل 12,776 پوسٹس، ویڈیوز یا یوٹیوب اکاؤنٹس کو پی ٹی اے نے اس دوران بلاک یا ہٹایا ہے۔ جبکہ ٹویٹر سے، کل 10,813 ٹویٹر پوسٹس یا اکاؤنٹس کو جنوری 2023 سے اب تک پلیٹ فارم سے بلاک یا مکمل طور پر ہٹا دیا گیا ہے۔ تاہم، سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلانے والے صارف کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک بڑے سیاسی جماعت کے سرکاری اکاؤنٹ سے صرف ایک ماہ- جولائی 2024 میں- جعلی خبروں پر مبنی کل 61 پوسٹس کی گئیں، جو کہ حکام کی جانب سے حاصل کردہ ڈیٹا میں ظاہر ہوئی ہیں۔دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ جیو گروپ کے ایڈیٹر انچیف اور سی ای او، میر شکیل الرحمٰن نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) میں ہزاروں ہتک عزت کے مقدمات دائر کیے ہیں۔ تاہم، ان میں سے صرف 84شکایات ابتدائی مرحلے یعنی تصدیقی عمل تک پہنچ سکے، جبکہ آج تک کوئی شکایت حل نہیں ہو سکی۔ عدالت کے احکامات اب تک صرف 23 مقدمات کے لیے ٹویٹر اور فیس بک کو بھیجے گئے ہیں۔ جنگ/جیو گروپ کے ترجمان نے اس نامہ نگار کو بتایا کہ یہاں تک کہ معروف شخصیات کے خلاف، جنہوں نے گروپ اور اس کے ایڈیٹر انچیف اور سی ای او کو بدنام کیا تھا، کئی ملاقاتوں اور یاد دہانیوں کے باوجود کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔پاکستان کے اٹارنی جنرل، منصور اعوان، نے دی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ "پاکستان میں جعلی خبروں کے مسئلے کو ہمارے عدالتی نظام، تحقیقاتی اداروں اور کبھی کبھار پراسیکیوٹرز کی عدم صلاحیت کی وجہ سے صحیح طور پر حل نہیں کیا جاتا۔" انہوں نے کہا کہ "برطانیہ کی عدالتوں کے معیار بہت زیادہ ہیں اور برطانیہ کی سائبر اسپیس کی صلاحیت کی تعمیر اور سائبر اسپیس کے قوانین پاکستان کے مقابلے میں انتہائی موثر اور فعال ہیں۔" منصور اعوان نے دی نیوز کو جعلی خبروں کے مسئلے پر اپنی تفصیلی رائے کا یقین دلایا، لیکن متعدد کوششوں کے باوجود، بعد میں انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔دی نیوز سے بات کرتے ہوئے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے وکیل، عامر عبداللہ عباسی نے کہا، "پاکستان میں جعلی خبریں سنجیدہ نقصان پہنچا رہی ہیں، لیکن بدقسمتی سے اس مسئلے کا سامنا موثر قوانین اور ان کی صحیح عملداری نہ ہونے کی وجہ سے نہیں کیا جا رہا۔دی نیوز نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی کچھ بڑی جعلی خبروں کا جائزہ لیا جہاں کسی ایک شخص کو بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔سب سے زیادہ وائرل ہونے والی جعلی خبروں میں سے ایک وفاقی وزیر سے متعلق تھی، جس پر اسرائیل کو ایٹمی حملے کی دھمکی دینے کا الزام لگایا گیا تھا۔ خود وزیر اور وزارت خارجہ کو مداخلت کرنی پڑی کہ فیس بک پر پوسٹ کی گئی یہ کہانی جعلی ہے۔ایک اور جعلی خبر یہ تھی کہ پی ٹی آئی حکومت اور اسرائیلی ریاست نے پاکستان میں پانی کی کمی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک معاہدہ کیا ہے۔ اس میں مزید کہا گیا کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے کئی بار پاکستان کا دورہ کیا اور اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کی صورت میں ہر قسم کی مدد کا یقین دلایا۔ یہ جعلی خبر، جسے وزارت خارجہ نے بھی جھوٹا ثابت کیا، وائرل ہوگئی اور پی ٹی آئی کی حکومت پر شدید تنقید کا باعث بنی۔