وزیر اعظم شہباز شریف نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے گزشتہ روز اپنے خطاب میں غزہ میں جاری اسرائیلی قتل و غارت گری، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی حکومت کی انسانیت سوز کارروائیوں، اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے دائرے ، خوفناک موسمیاتی تبدیلیوں اور دیگر وجوہات کے باعث دنیا کے تقریباً سو ملکوں کو درپیش سنگین معاشی چیلنجوں سے رونما ہونے والی صورت حال سے نمٹنے کیلئے عالمی برادری کو اس کی ذمے داریوں کا احساس دلانے کی بھرپور کوشش کی۔غزہ کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ غزہ کے بچوں کے خون سے ظالموں ہی کے نہیں‘ ان سب کے ہاتھ بھی رنگے ہوئے ہیں جو اس تنازع کو طول دینے میں شریک ہیں۔ فلسطینیوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی، ہمیں دو ریاستی حل کے ذریعے مستقل امن کیلئے کام کرنا ہوگا۔وزیر اعظم نے واضح کیا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کیلئے بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں پانچ اگست 2019 کے غیر قانونی اقدامات کو واپس لینا ہو گا۔غزہ میں اسرائیل کی جانب سے نسل کشی اور قتل عام سمیت دنیا کے نظام کو درپیش سنگین چیلنجوں کو دیکھتے ہوئے ہمیں نئے عالمی نظام گونج سنائی دے رہی ہے ۔افغانستان میں موجود داعش،القاعدہ اور فتنہ الخوارج امن کے لیے خطرہ ہیں ۔ انہوں نے واضح کیا کہ انسداد دہشت گردی کے عالمی ڈھانچے میں اصلاحات کی ضرورت ہے ۔دہشت گردی‘موسمیاتی تبدیلی اور اسلامو فوبیاکے عالمی چیلنجوںسے نمٹنے کے لیے عالمی برادری کی اجتماعی کاوشیں درکار ہیں۔شہباز شریف نے قرضوں اور لیکویڈیٹی کے منحوس دائرے کو موت کا جال قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں پھنسے ہوئے تقریباً سو ترقی پذیر ممالک کے ساتھ پائیدار ترقی کے عالمی اہداف کو حاصل کرنا ایک سراب ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس مقصدکے لیے اپنے ترقی یافتہ شراکت داروں کی طرف سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل کا منتظر ہے جس میں موسمیاتی فنانس میں سالانہ 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا نیا سالانہ ہدف بھی شامل ہے۔ تاہم وزیر اعظم شہباز شریف کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے اپنے خطاب میں جنگ کے دائرے کو پھیلانے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ ایران میں کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں اسرائیل پہنچ نہ سکے۔ لبنان میں پیجر اور واکی ٹاکی حملوں کے بعداسرائیل نے بیروت میں حزب اللہ کے ہیڈکوارٹر کو طاقتور میزائلوں سے نشانہ بناکر اپنے جارحانہ عزائم کا کھل کر اظہار کردیا ہے۔ شام بھی اسرائیل کی جارحانہ کارروائیوں کی زد میں ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل فلسطینیوں کی سرزمین پر غاصبانہ قبضہ ختم کرانے اور ایک سال سے غزہ میں جاری آگ اور خون کے کھیل کو بند کرانے میں ، جس کا دائرہ مشرق وسطیٰ میں روز بروز وسیع تر ہورہا ہے،مؤثر عملی اقدامات سے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتی چلی آرہی ہے ۔ دوسری جانب مقبوضہ کشمیر میں بھی عالمی برادری کی جانب سے بھارتی حکمرانوں کو من مانی کی کھلی چھوٹ ملی ہوئی ہے ، مودی حکومت کے پانچ اگست کے سراسر غاصبانہ اقدام پر چپ سادھ کر اور رائے شماری کی قراردادوں پر عمل درآمد میں قطعی عدم دلچسپی کی روش اختیار کرکے اقوام متحدہ نے اپنا سارا وزن عملاً غاصب قوتوں کے پلڑے میں ڈال رکھا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے شکار ملکوں کے مسائل کے حل میں تعاون کے حوالے سے بھی ترقی یافتہ ملکوں کے رویے میں گرمجوشی کا فقدان نظر آتا ہے۔ تاہم پوری دنیا کی پائیدار ترقی اور خوشحالی کے اہداف اسی صورت میں حاصل ہوسکتے ہیں جب عالمی ادارہ طاقتوروں کا آلہ کار بنے رہنے کے بجائے دنیا میں امن اور انصاف کے قیام کے لیے اپنے فرائض پوری نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ انجام دے ، بصورت دیگر ایک اور عالمی جنگ کے خدشات حقیقت میں ڈھل سکتے ہیں جن کی جانب وزیر اعظم نے عالمی برادری کو اپنے خطاب میں توجہ دلائی ہے ۔