ہر گزرتے دن کے ساتھ ہماری قوم بدتمیزی اور بدتہذیبی کی گہری کھائی میں گرتی جارہی ہے اور قوم کی راہ متعین کرنیوالے سیاسی رہنما اسےگرنے سے روکنے کے بجائے اسکی حوصلہ افزائی کررہے ہیں۔ ماضی میں دنیا کے مہذب ترین سمجھے جانیوالے ملک برطانیہ میں میاں نواز شریف کے گھر کے باہر غلیظ ترین الفاظ کا استعمال سن کر دماغ سکتے میں رہا کہ ہمارے پاکستانی بھائی کیسی گندی زبان استعمال کررہے ہیں اور انکی سیاسی لیڈر شپ ان کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آرہی ہے؟ ابھی چند روز قبل ملک میں انصاف فراہم کرنے والے ادارے کی سب سے بڑی شخصیت سے جس طرح موبائل فون کیمرہ پکڑ کر ویڈیو بناتے ہوئے بداخلاقی کی گئی ہے اس نے ہماری قوم کی اخلاقی پستی کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس حرکت کی پوری قوم کی جانب سے مذمت کی جاتی لیکن ہوا یہ ہے کہ اس حرکت کے بعد اس دکان والے کی ایک سیاسی جماعت نے حوصلہ افزائی شروع کر دی جسکے بعد سے اس دکان کے باہر ہزاروں کا مجمع اسکی حوصلہ افزائی کیلئے کھڑا نظر آتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایک اہم حکومتی شخصیت کا ایک اہم دوست ملک کا دورہ شروع ہونے کو تھا جہاں انھوں نے پاکستانی برادری سے بھی خطاب کرنا تھا لیکن ان کی مخالف سیاسی جماعت کے لوگوں کا منصوبہ کچھ اور ہی تھا جہاں مخالفین نے اپنے کچھ لوگ خطاب گاہ میں بطور کمیونٹی ارکان داخل کرنے تھے جن کے پاس انڈے اور ٹماٹر ہونے تھے اور پھر اس ریاستی شخصیت کے خطاب کے دوران ہی ان شرپسندوں نے منصوبے کے تحت وہ انڈے اور ٹماٹر اسٹیج کی جانب مذکورہ شخصیت پر مارنے تھے جبکہ کچھ لوگوں کی ڈیوٹی تھی کہ وہ اس واقعے کو موبائل فون میں ریکارڈ کریں اور فوری طور پر اپنی سوشل میڈیا ٹیم کو دیں گے تاکہ اپنے ملک کی اہم شخصیت کو پوری دنیا میں سوشل میڈیا پر ذلیل و رسوا کیا جا سکے۔ اس منصوبے کا کچھ سرکاری حکام کو وقت سے پہلے علم ہو گیا جسکے بعد اس اہم حکومتی شخصیت کے دورے میں کمیونٹی سے خطاب کا منصوبہ ہی ختم کر دیا گیا اور یوں اپنے ہی ملک کی اہم ریاستی شخصیت کے خلاف اپنے ہی لوگوں کی جانب سے کی جانیوالی سازش ناکام ہو گئی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے خلاف دنیا کو سازش کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے جب ہم خود ہی اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے، ہماری سوشل میڈیا کے سائے میں پلنے والی نئی نسل جسے سوشل میڈیا نے اپنے سیاسی قائدین کے کہنے پر مخالفین کو ذلیل و رسوا کرنے کی مادر پدر آزادی فراہم کر دی ہے، صرف اتنا ہی نہیں ملک کی ہر سیاسی جماعت نے اپنی سوشل میڈیا ٹیمیں قائم کر دی ہیں جن کا مقصد مخالفین کو سوشل میڈیا پر ذلیل و رسوا کرنا اور مخالفین کے سوشل میڈیا حملوں کا اس سے بھی زیادہ گندی زبان میں جواب دینا ہے، ہر سیاسی جماعت نے اپنی سوشل میڈیا مہمات لئے بھاری بجٹ بھی مختص کر رکھے ہیں، جس کے بعد یہ سوشل میڈیا ٹیمیں اپنی سیاسی جماعت کے مخالفین چاہے کوئی سیاسی جماعت ہو یا ریاستی ادارے ان سب پر سچے جھوٹے الزامات لگانا ان سوشل میڈیا ٹیموں کا مقصد بن گیا ہے، ملک کی اہم ترین شخصیات پر جھوٹے الزامات لگا کر سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا کرنے کو ان کے سیاسی قائدین جمہوری آزادی کہہ کر اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کا دفاع کرتے نظر آتے ہیں، یہ کیسی جمہوری آزادی ہےکہ جس میں مخالف کے خاندان تک پر گندے غلیظ جھوٹے الزامات عائد کیے جائیں، انکی فوٹو شاپ کر کے گندی تصاویر بنا کر انٹرنیٹ پر پھیلائی جائیں اور ایسی گھٹیا حرکتوں کو اپنی بات کہنے کی جمہوری آزادی کہا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ سب سے زیادہ اسلام اور اسکے بعد دنیا کا ہر مذہب اور معاشرہ اپنے ماننے والوں کو ادب و احترام کی تعلیم دیتا ہے، بچوں کو ابتدائی تعلیمی مراکز میں والدین اور بڑوں کا ادب و احترام سکھانا بنیادی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں ہمارے ہی سیاسی رہنما نئی نسل کو مخالفین کو رسوا کرنے کی جو تعلیم دے رہے ہیں اس کے مستقبل میں بہت خطرناک نتائج ہو سکتے ہیں لہٰذا اب بھی وقت ہے قوم کو سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے روکنے کیلئے قانون سازی کریں، جھوٹے الزامات لگانے والوں کو سخت سے سخت سزا دیں اور برائی کی حوصلہ افزائی کرنا بھی بند کریں تاکہ ہمارا شمار بھی مہذب قوموں میں ہو سکے، ورنہ ہم تو پہلے ہی تعلیم، ترقی، ایمانداری اور انصاف کی فراہمی میں بہت پیچھے جا چکے ہیں۔ پاسپورٹ ہمارا دنیا کے کم اثر ترین پاسپورٹوں میں شمار ہوتا ہے یہی حال رہا تو ہمارا اللہ ہی حافظ ہے۔