• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایثار و سخاوت اور راہِ خُدا میں مال خرچ کرنے کی فضیلت و اہمیت

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

آج دنیا کے ماحول پر مادّیت کا غلبہ ہے ۔ خواہش نفس کی پیروی نے نیکی اور بدی کی پہچان کو بھی بدل دیا ہے۔ خود غرضی نے انسانیت کی قدریں مٹادی ہیں۔ معیارِ زندگی کو بلند کرنے کی ہوس نے لوگوں کو بدعنوانی کے جال میں پھنسا رکھا ہے۔ اُنس و محبت کے خمیر سے پیدا کیا گیا انسان درندہ صفت حیوان بن گیا ہے۔ وہ ایک دوسرے کے خون سے اپنی پیاس بجھانے کے لئے بے قرار ہے۔ امیر اپنے ہی جیسے غریب ، بے بس و لاچار انسانوں کے خون پسینے کا کاروبار کرنے لگے ہیں اور اسی بنیاد پر اپنی زندگی کی عالیشان عمارت کھڑی کرتے ہیں۔ 

خود غرضی نے پوری انسانیت میں بے چینی اور اضطراب کی سی کیفیت پیدا کردی ہے۔ اس خطرناک مرض کا یہ حال ہے کہ اسے کوسا جاتا ہے، مگر اس کے علاج کی فکر نہیں ہوتی، اس بیماری کا ایک یقینی علاج موجود ہے جس نے ساڑھے چودہ سال پہلے ایسے ہی پرا گندہ ماحول کو خوشگوار فضا میں تبدیل کر دیا تھا۔ 

یعنی اسلام ! اسلام نے انسانوں کو یہ تعلیم دی کہ ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، اسلام کی دعوت کا بنیادی سبق ایثار ہے۔ ایثار کی تعریف یہ ہے کہ انسان کا اپنی ضرورت پر دوسروں کی ضرورت کو ترجیح دینا، مثلاً کوئی اپنی بھوک کی شدت کے باوجود اپنا کھانا کسی دوسرے بھوکے شخص کو کھلا دے، یہ ایثار ہے۔ 

قرآن کریم اور حدیث و سنت میں جو تعلیمات دی گئیں ہیں، ان میں اہم ترین تعلیم یہی ہے کہ معاشرے کا ہر فرد دوسرے افراد معاشرہ کی فکر کرے اور ان کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دے۔ قرآن کریم کی سورۂ حشر میں اس فلسفے کو بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ مومن کی صفت ہے کہ یہ لوگ چاہے خود تنگی میں کیوں نا ہوں، دوسروں کی ضروریات کو اپنی ضروریات پر ترجیح دیتے ہیں۔ 

اس کے بعد جو بات کہی گئی ہے وہ اس کی مزید وضاحت کرتی ہے اور مومن کی اس صفت کہ وہ اپنی ضرورت پر دوسرے کی ضرورت کو ترجیح دیتے ہیں، کو ’’اظہرمن الشمس‘‘ کر دیتی ہے، فرمایا کہ یاد رکھو! جو شخص (یاگروہ) ’’شحّ ِ نفس‘‘ (دل کی بخیلی اور کنجوسی) سے خود کو بچالے اسی کو (روحانی) ترقی اور کامیابی حاصل ہوتی ہے۔‘‘ (سورۂ حشر 59) 

’’شحّ ِ نفس‘‘ کا صحیح مفہوم اس مثال سے سمجھیں کہ سخت گرمی کا موسم ہو، کسی جگہ تھوڑا سا پانی ہو اور بہت سے پیاسے ہوں، ایسی حالت میں دو آدمی جس طرح ایک دوسرے کو دھکیل کر پیچھے ہٹانے اور آگے بڑھ کر پانی حاصل کر کے اپنی پیاس بجھانے کی کوشش کرتے ہیں، اس کیفیت اور بدترین قسم کی خود غرضی کو’’شحّ ِ نفس‘‘ دل کی بخیلی یا کنجوسی کہتے ہیں۔ سورۂ تغابن میں بھی یہی بات کہی گئی ہے کہ ’’ جہاں تک تمہارے بس میں ہو، اللہ سے ڈرتے رہو اور سنو ، اطاعت کرو، اپنے مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرتے رہو ،یہی تمہارے لئے بہتر ہے۔ جو اپنے دل کی تنگی (دل کی بخیلی اور کنجوسی) سے بچ گئے وہی لوگ کامیاب ہیں۔ ‘‘

ہر انسانی معاشرے میں کچھ لوگ فراخ دل اور کشادہ دست ہوتے ہیں اورکچھ لوگ تنگ دل، کم ظرف اور کنجوس و بخیل ہوتے ہیں۔ فراخ دست انسان معاشرے میں پسندیدہ اور ہر دلعزیز ہوتے، جبکہ ’’شحّ ِ نفس‘‘کے مارے ہوئے بخیل و کنجوس اور تنگ دل کردار کے حامل لوگ ناپسندیدہ ہوتے ہیں۔ دادودہش والا انسان معاشرے کے دل میں گھر کر جاتا ہے اور بے کرم و بخیل انسان معاشرے سے دوری اختیار کرتا ہے، ہر معاشرے میں حاتم طائی کردار کے حامل لوگوں کے حالات و واقعات نسل در نسل یاد رکھے جاتے ہیں۔ 

جبکہ کنجوس اور بخیل لوگوں کے قصّے عوام کے دل بہلانے کو لطیفے بن جاتے ہیں۔ تنگ دل اور بخیل انسان کے بارے میں نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ ’’سخی آدمی اللہ سے قریب ، جنت سے قریب ، لوگوں سے قریب اور جہنم سے دور ہے۔ بخیل آدمی اللہ سے دور، جنت سے دور، لوگوں سے دور اور جہنم سے قریب ہے، جاہل سخی اللہ کے نزدیک بخیل عالم سے کہیں زیادہ محبوب ہے،‘‘(ترمذی)

قرآنی آیات اور حدیث مبارکہ میں فلاح اور بیان کردہ، اللہ، جنت اور مخلوق سے قرب اور محبوبیت الہٰی ہی دراصل سخی انسان کی دنیا و آخرت میں کامیابی ہے اور بخیل کا ، اللہ ، جنت ، لوگوں سے دوری ہی اصل ناکامی ہے۔ ’’شحّ ِ نفس‘‘ کے مریض بخیل انسان کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے کترائے گا اور اگر کوئی اس سے پوچھ بیٹھے تو وہ اپنی شاہ خرچیوں کی لمبی فہرست پیش کرے گا۔ 

قرآن کریم نے ایسے بخیل و کنجوس لوگوں کا نفسیاتی کردار ان الفاظ میں پیش کیا ہے۔’’ کہتا ہے کہ میں نے ڈھیروں مال اڑا دیا۔ (سورۂ بلد6:) ایسے تنگ دل اور بخیل لوگوں کے برخلاف اللہ کے راستے میں انفاق کرنے والا بھی کچھ دیتا ہے تو اسے انتہائی ذہنی خوشی اور روحانی سکون حاصل ہوتا ہے۔ یہی ذہنی آسودگی و خوشی اور روحانی سکون ہی دراصل انسانی روح کی نشوونما اور اس کا پروان چڑھنا ہے اسی کو روحانی ترقی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ 

انسان کا جسمانی وجود اسی دنیا میں قبر کی مٹی میں مل کر مٹی ہو جاتا ہے۔ موت کے بعد آئندہ کی زندگی میں قبر سے حشر تک کا سفر روح ہی کو طے کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا اللہ انسان سے یہ چاہتا ہے کہ اپنا مال اللہ کے راستے میں خرچ کرکے ’’شحّ ِ نفس‘‘ سے بچتا رہے اور اپنی روح کو نشوونما دےکر آخرت کی منزلوں کے سفر کے لئے ترقی دیتا رہے، تاکہ اس کی روح جنت تک کا سفر آسانی سے طے کر سکے۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بندہ (ترنگ میں آکر ) کہتا ہے ، میرا مال، میرا مال، حالانکہ اس کے (جمع کئے ہوئے ) مال میں سے اس کا حصہ صرف تین قسم کا مال ہے، جو اس نے کھا لیا اور فنا ہو گیا یا جو اس نے پہن لیا اور بوسیدہ ہو گیا۔ یا جو اس نے اللہ کی راہ کی میں دے دیا اور وہ اس کے لئے ذخیرۂ آخرت بن گیا۔ 

اس کے علاوہ جو کچھ بھی ہے (وہ اس کا نہیں ہے) وہ تو آخرت کا راہی ہے وقت آنے پر چلا جائےگا اور (اپنا تمام جمع کیا ہوا مال وارثوں کے لئے ) چھوڑ جائے گا‘‘۔(صحیح مسلم) پختہ ایمان تنگ دلی سے محفوظ رکھتا ہے، جو اللہ پر یقین رکھتا ہے، وہ اس بات پر بھی یقین رکھتا ہے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے، وہ اللہ ہی کا دیا ہوا ہے اور اسی اللہ کا حکم یہ بھی ہے کہ مال اس کی راہ میں خرچ کیا جائے۔

جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کیا جاتا ہے، اللہ اسے اپنے ذمہ قرض قرار دیتا ہے اور اسے بڑھا چڑھا کر واپس لوٹا دیتا ہے، مگر ضروری نہیں کہ رقم کی شکل میں لوٹائے، بلکہ اس بندے کو وہ کچھ عطا کرتا ہے جو آخرت میں انعام کے علاوہ اس کی دنیاوی زندگی کو بھی خوشحال بنا دیتا ہے، مثلاً مال میں برکت، جسم و جان کی سلامتی، بیماریوں سے تحفظ ، دلی سکون، بچوں کی ترقی، دنیا میں عزت اور نیک نامی اور ایمان کی موت اور آخرت میں جنت یہ وہ عطیات و انعامات ہیں، جن کا خدائے مہربان اپنے کشادہ دل بندوں پر نزول فرماتا ہے۔ 

اللہ فرماتا ہے۔ ’’تم میں سے کون ہے، جو اللہ کو قرض حسنہ دے ،تا کہ اللہ اسے کئی گنا بڑھا چڑھا کر واپس کردے۔ گھٹانا بھی اس کے اختیار میں ہے اور بڑھانا بھی، اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کر جانا ہے ‘‘۔ (سورۃالبقرہ245:) ایک مومن کو انسانوں پر اپنا مال خرچ کرنے پر جو چیز آمادہ کرتی ہے، وہ یہ عقیدہ ہے کہ یہ دنیا عارضی اور فانی ہے اور جو دولت مجھے اللہ نے عطا کی ہے، اس سے آخرت کمائی جائے۔ کیوں کہ وہاں پہنچنے کے بعد نیکیوں کی ضرورت پڑی تو سوائے حسرت کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ اس لئے کہ وہاں زرکا مبادلہ ممکن نہیں۔

یاد رکھیئے کہ ایثار، سخاوت، دریادلی شحّ ِ نفس بخیلی اور کنجوسی کی سب سے بڑی ضد ہیں۔ ایثار کی صفت بڑھانے سے انسان کو تنگ دلی سے نجات ملتی ہے۔ ایثار سے انسان میں یہ جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ میری ذات سے کسی کادکھ درد دور ہو جائے، اس وقت ہمارے معاشرے میں جود گرگوں معاشی حالات ہیں، ان حالات میں لاکھوں کروڑوں یتیم ، بے بس ، بیوہ ، مسکین اور مجبور انسان ہیں ،جن کی آنکھیں ہماری طرف تکتی ہیں۔ 

ان کے جذبات اور بھوک پیاس کے درد سمجھنا اور خود اپنی مجبوریوں اورتہی دامانی کے باوجود دوسروں کی مدد کر دینا جذبۂ ایثار کے بغیر ممکن نہیں۔ ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ فیاضی اور معاشی خوشحالی کے درمیان کوئی رشتہ نہیں ہے۔ کچھ لوگ اپنی بنیادی ضرورت سے زیادہ نہیں رکھتے، مگر ایثار کرنا اُن کے لئے آسان ہوتا ہے۔

جبکہ کچھ لوگ ہوتے ہیں جنہیں مال کی فراوانی بلکہ بہتات حاصل ہوتی ہے، انتہا ہے کہ انہیں خودنہیں معلوم ہوتا کہ اُن کے پاس کتنا مال و دولت ہے ، مگر دوسروں کو دیتے ہوئے انہیں ایسا لگتا ہے کہ گویا دم گھٹ رہا ہو اور جو لوگ ایثار کرتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ جو حقیر سی رقم ان کی مٹھی میں ہے ،اسے وہ کسی دوسرے پر بطور ایثار خرچ کر کے اس سے وہ محبت، دعائیں اور برکتیں خرید سکتے ہیں۔ 

ایسے ہی صاحبان ایثارِو سخاوت دوسروں کے ساتھ شفقت و محبت اور امداد کا رشتہ قائم کر کے اپنی زندگی کو بامعنی بناتے ہیں اور ایثار و فیاضی کے مثبت جذبات سے اپنی روحوں کی آبیاری کرتے ہیں اور اپنی روحوں کو موت کے بعد کی زندگی کے لئے پروان چڑھا کر توانا کرتے ہیں۔ 

تنگ دلی کا شکار بخیل انسان مال کو روک کر خود اپنے لئے خدا کی رحمت اوربرکت کو روکنے کا سبب بن جاتا ہے۔ حضرت اسما ء ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ’’مال کو تھیلی میں بند کر کے مت رکھنا، ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہارے لئے اپنے خزانے میں بندش لگا دے گا۔ جہاں تک ہو سکے لوگوں میں خیرات تقسیم کرتے رہو۔ ‘‘ (صحیح بخاری)

رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک سے آج تک مسلمانوں کی تاریخ ایثارو قربانی، سخاوت و فیاضی کے واقعات سے بھری پڑی ہے ۔

آج بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ مہنگائی ، معاشی بدحالی ، بھوک و افلاس کے ان بد ترین حالات میں ہم اپنے تنگ دست و محروم بھائیوں کی ہر طرح مدد کریں۔ اگر ہمارے پاس ایک روٹی ہے، اگر پوری نہیں تو آدھی روٹی اپنے بھوکے بھائی کو دے دیں۔ اگر ہمارے پاس علاج کے لئے سو روپے ہیں تو پچاس روپے اپنے دوا اور علاج سے محروم بھائی کو دے دیں۔ اگر ہمارے بچے کے پاس کپڑے کے دو جوڑے ہیں تو ایک جوڑا اپنے غریب پڑوسی کے ننگے بدن بچے کوپہنا دیں۔ ایسے وقت میں کہ جب لوگ بجلی گیس کے بلوں کی رقم ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے خود کشیوں پر مجبور ہو گئے ہیں تو کسی غریب کا بجلی کا بل ادا کر کے اس گرمی میں اس کی بجلی کٹنے سے بچالیں۔ 

اگر ہم کسی کی کوئی بھی ضرورت پوری کرنے، کسی کی کسی بھی طرح مدد کرنے کے قابل نہیں ہیں تو کم از کم اپنے کسی پریشان حال بھائی کو اس کی مفلسی اور بھوک میں تسلی اور دلاسا ہی دیں کہ یہ بھی بہت بڑی فیاضی اور دریادلی ہے۔ آئیے دعا کریں کہ اللہ ہمیں شحِّ نفس (بخل و کنجوسی )سے بچائے اور اپنی ضرورت روک کربھائی کی ضرورت پوری کرنے کی توفیق عطا فرماتے۔(آمین)