تفہیم المسائل
سوال: میں اپنی زندگی میں اپنا مکان اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتا ہوں، میرے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، میرا مکان آدھا تھا، جسے فروخت کرکے میں نے بڑے بیٹے کو پیسے دیدیئے تھے ،جس سے اس نے دکان لی اور پھر مکان خریدا۔ مکان تینوں بیٹوں نے مل کر خریدا اور تینوں نے تعمیر بھی کروائی، مکان میری بیوی کے نام پر ہے ، زندگی میں تقسیم کرنے پر کتنے حصے ہوں گے اور مرنے کے بعد کتنے حصے ہوں گے؟ (محمد فاروق، کراچی)
جواب: آپ کے سوال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اُس مکان کی ملکیت بظاہر آپ کو حاصل ہے اور آپ کی بیوی کے نام پر کاغذات ہیں، بیٹوں نے جو کچھ مکان میں لگایا، اُن کی طرف سے بطور تبرُّع تھا اور اب بھی کوئی بیٹا آپ سے تقسیم کا مطالبہ نہیں کررہا، تاہم اگر آپ اپنی زندگی میں اولاد کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے ہیں، تو مساوات برتیں یعنی بیٹے اور بیٹی دونوں کو برابر برابر دیں کیونکہ زندگی میں کسی کا مال بطور ترکہ تقسیم نہیں ہوتا، ترکہ مرنے کے بعد بنتا ہے، زندگی میں آپ جو کچھ اولاد کو دیں گے، وہ ہبہ (Gift) کہلائے گا اور شریعت کی رُو سے مستحسن امر یہ ہے کہ تمام اولاد کے درمیان مساوات کو روا رکھے یعنی بیٹے اور بیٹی سب کو برابر برابر دے۔ آپ اپنے لیے جتنا چاہیں، رکھ سکتے ہیں، آپ کی وفات کے بعد وہ آپ کا ترکہ ہوگا اور اسلام کے اصولِ وراثت کے مطابق آپ کی اولاد میں تقسیم ہوگا۔
آپ نے پوچھا ہے:’’ میرے فوت ہونے کے بعد کتنے حصے ہوں گے ‘‘، قبل از وقت ترکے اور ورثاء کا تعین ممکن نہیں، یہ کسی کو معلوم نہیں ہے کہ کون پہلے فوت ہوگا اور کون بعد میں، کون وارث بنے گا اور کون مورث، آپ کے انتقال کے وقت جو ورثاء حیات ہوں گے، وہ حصہ پائیں گے، البتہ اُس وقت جو اولاد حیات ہوگی، ان میں ہر بیٹے کو بیٹی سے دگنا ملے گا، مساوات صرف زندگی میں ہبہ کی صورت میں لازم ہے۔ (واللہ اعلم بالصواب)