• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حفاظت کے باوجود اگر امانت ضائع ہوجائے تو اسے واپس کرنا لازم ہوگا؟

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: ہم ایک کمرے میں کرایے پر رہتے تھے، میرے تین بیٹے اور ایک بہنوئی تھا، میرے بیٹے کے پاس ایک شخص نے بطور امانت ایک لاکھ روپے رکھوائے تھے اور میرے بھی تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے تھے، یہ سب ایک صندوق میں تھے، صندوق کو تالا لگایا تھا اور کمرے کو بھی تالا لگایا تھا، ہم صبح کام پر گئے تھے، جب شام کو واپس آئے تو کمرے اور صندوق دونوں کا تالا توڑا پایا اور صندوق سے سارے پیسے چوری ہو گئے تھے، میں نے اس علاقے کے ایک بااثر شخص سے کیس کا مشورہ کیا تو اس نے کیسں نہ کرنے کا مشورہ دیا، اب وہ شخص جس کی امانت تھی، وہ اپنے پیسے مانگ رہا ہے، آیا شریعت میں ہم پر اسے یہ پیسے لوٹانا لازم ہے یا نہیں ؟

جواب: صورتِ مسئولہ میں اس شخص نے سائل کے بیٹے کے پاس ایک لاکھ روپے بطورِ امانت رکھوائے تھے اور سائل کے بھی تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے تھے، اور سائل کے بیان کے مطابق اس کے بیٹے نے مذکورہ رقم کو ایک ساتھ حفاظت سے رکھا تھا اور اس کی طرف سے حفاظت میں کسی قسم کی کوتاہی اور غفلت نہیں کی تھی، اس کے باوجود وہ پیسے چوری ہوگئے، اس لیے سائل کے بیٹے پر شرعاً ان پیسوں کو لوٹانا لازم نہیں ہے۔ (شرح المجلّہ لسلیم رستم باز، أحكام الوديعة، رقم المادة:777، ج:1، ص:342، ط:رشيديه)