• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ

مالکِ ارض و سماء نے جب سے کائنات کو وجود بخشا، آسمان کو رفعت عطا کی، زمین کو بچھایا اور پھیلایا، اس کے ساتھ ہی اس حیّی وقیوم ذات نے اس زمین کی آبادکاری، حفاظت و صیانت اور لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے بطور عبادت گاہ اور نشانِ ہدایت، اس پر اپنا گھر بیت اللہ بھی بنایا۔ 

جسے ظاہری، باطنی، حسّی اور معنوی برکات سے معمور کیا اور سارے جہاں کی ہدایت کا سرچشمہ ٹھہرایا۔ مذہب اسلام کے پیروؤں کو مشرق و مغرب میں اسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم ہوا۔ اس گھر کے معمار حضرت محمد رسول اللہ ﷺ،حضرت آدم علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ملائکہ رہے ہیں۔

اس گھر کے بعد اپنا ایک اور گھر بیت المقدس اس زمین پر سجایا۔ جسے حضرت آدم علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام اور جنوں کے ہاتھوں تعمیر کرایا اور ہر زمانے میں اپنی عبادت اور اپنے سامنے مخلوق کی جبینِ نیاز جھکانے کی غرض سے اپنے مخلصین بندوں کے ہاتھوں یہ نیکی کے نشان اور اپنے گھر تعمیر کرائے‘ جو کبھی ’’ صَوَامِع ‘‘ ، کبھی ’’ بِیَع‘‘ ، کبھی ’’ صَلَوَات‘‘ اور پھر ’’ مساجد ‘‘ کے نام سے یاد اور آباد کیے جاتے رہے، جن کی حفاظت و صیانت کی تدبیر مالک الملک مختلف طریقوں سے فرماتا رہا۔

آپ ﷺ جب تک مکۂ مکرمہ میں مقیم رہے، بیت اللہ کے ساتھ عشق و محبت اور مالک البیت کے سامنے آدابِ بندگی بجا لاتے رہے۔ آپ ﷺکے بیت اللہ اور سر زمین مکہ سے عشق و محبت کا اندازہ اس سے بخوبی ہوتا ہے کہ کفارِ مکہ نے جب آپ ﷺ کو مکہ سے ہجرت کرنے پر مجبور کیا تو آپ ﷺ نے بڑے حزین و غمگین انداز میں سر زمین مکہ کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اے مکہ ! تو کتنا پاکیزہ شہر ہے اور تو مجھے کتنا محبوب ہے! اگر میری قوم مجھے تجھ سے نکلنے پر مجبور نہ کرتی تو میں تجھے چھوڑ کر کہیں اور کبھی نہ جاتا۔‘‘ (ترمذی ج:۲، ص:۲۳۲)

آپﷺ جب مدینۂ منورہ تشریف لائے تو سب سے پہلا کام یہ کیا کہ مسجد تعمیر کی، نہ صرف یہ کہ آپ ﷺنے خود مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا، بلکہ دوسروں کو بھی مساجد بنانے کی ترغیب دی اور اس کے فضائل و مناقب ارشاد فرمائے، مثلاً: مسجد نبویؐ سے متصل زمین کا ایک ٹکڑا پڑا تھا جسے مسجد کی توسیع کی غرض سے مسجد میں ملانے کی ضرورت تھی۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:ترجمہ: ’’جو زمین کے اس ٹکڑے کو خرید کر مسجد کی توسیع کرے گا‘ اسے جنت میں اس جیسا گھر ملے گا۔‘‘(کنزالعمال ج: ۸‘ ص:۳۱۴)

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جو ایسے کاموں میں ہمیشہ سبقت لے جاتے تھے،اس موقع پر بھی وہ سبقت لے گئے اور وہ جگہ خرید کر مسجد نبویؐ میں شامل کرکے جنت میں اپنا محل بنا لیا۔

قرآن کریم میں مساجد کی تعمیر کو اہل ایمان کی صفت قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ ارشاد ہے: ترجمہ: ’’اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتا ہے جو ایمان لایا اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور قائم کیا نماز کو اور نہ ڈرا سوائے اللہ کے۔‘‘(سورۃالتوبۃ:۱۸)

مساجد بنانے والے اور ان کی تعمیر و ترقی میں حصہ لینے والے، نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ کی زبانی : ’’اللہ کے پڑوسی، اللہ کے اہل، اللہ کے عذاب کو روکنے کا سبب اور اللہ کے محبوب‘‘ کا خطاب پانے والے ہیں۔

جیسا کہ درج ذیل احادیث اس پر شاہد ہیں: ’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراکرمﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائیں گے: میرے پڑوسی کہاں ہیں؟ ملائکہ عرض کریں گے: آپ کے پڑوسی کون ہوسکتے ہیں؟ اللہ پاک فرمائیں گے: مسجد کے آباد کرنے والے کہاں ہیں؟ (وہ میرے پڑوسی ہیں)۔‘‘ (کنزالعمال ، ج:۷،ص: ۵۷۸)

’’حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی مساجد آباد کرنے والے اللہ عزوجل کے اہل ہیں۔‘‘(کنزالعمال‘ ج:۷‘ ص:۵۷۸)

’’حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں اہل زمین پر عذاب کا ارادہ کرتا ہوں، پھر اپنے گھروں (مساجد) کے آباد کرنے والوں‘ میری وجہ سے ایک دوسرے سے محبت رکھنے والوں اور سحری کے وقت استغفار کرنے والوں کو دیکھتا ہوں تو وہ عذاب ان سے پھیر لیتا ہوں۔‘‘(کنزالعمال: ج:۷‘ ص:۵۷۹) حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے مسجد سے محبت کی، اللہ تعالیٰ اس سے محبت فرماتا ہے۔‘‘ (کنزالعمال ج:۷‘ ص:۶۴۹)

آپﷺ کے نقشِ راہ کی پیروی کرتے ہوئے صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی اس فریضے کی ادائیگی کو اپنا نصب العین بنائے رکھا۔چنانچہ کنزالعمال میں ہے:ترجمہ: ’’حضرت عثمان بن عطاؒ راوی ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطابؓ نے کئی شہر فتح کرلیے تو حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ جو بصرہ کے گورنر تھے، ان کو فرمان جاری کیا کہ بصرہ شہر میں جامع مسجد بنائی جائےاور قبائل میں بھی مسجدیں بنائی جائیں اور جمعہ کے دن سب جامع مسجد میں آئیں اور نماز جمعہ میں شریک ہوں۔ حضرت سعد بن ابی وقاصؓ جو کوفہ کے امیر تھے اور حضرت عمرو بن عاصؓ جو مصر کے امیر و گورنر تھے، ہر ایک کو اسی طرح کا فرمان جاری کیا۔‘‘ (کنزالعمال،ج: ۸، ص:۳۱۳)

حضورﷺ نے مسجد،مساجد بنانے اور مسجد کے قریب رہنے والے کی اہمیت و فضیلت اپنے فرامین میں کچھ اس طرح ارشاد فرمائی ہے کہ: مساجد زمین میں اللہ کے گھر،مساجد زمین کے بہترین ٹکڑے، مسجد میں آنے والے اللہ کے مہمان، مساجد جنت کے باغات، مساجد آخرت کے بازار ، مسجد کے قریب رہنے والے کی ایسی فضیلت ہے جیسے غازی کی قاعد پر، مساجد ہر مومن کا گھر ہیں، مساجد بنانے اور اس کو وسعت دینے والے جنت میں اپنا محل بناتے ہیں، مسجد میں قندیل (بلب‘ ٹیوب لائٹ وغیرہ) لٹکانے والے کے لیے اس وقت تک ستّر ہزار فرشتے دعا کرتے رہتے ہیں، جب تک وہ قندیل باقی رہے، اسی طرح مسجد میں چٹائی (فرش وغیرہ) بچھانے والے کے لئے ستّر ہزار فرشتے دعا کرتے رہتے ہیں جب تک کہ وہ چٹائی استعمال ہوتی رہے۔

ایک حدیث میں ہے: ترجمہ: ’’حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت فرماتے ہیں تو اسے مسجد کی دیکھ بھال پر مقرر فرمادیتے ہیں اور جب کسی بندے سے ناراض ہوتے ہیں تو اسے حمام جیسی گھٹیا چیزوں پر لگا دیتے ہیں۔‘‘(کنزالعمال ،ج:۷،ص:۶۵۳)

ایک جگہ ارشاد ہے: ترجمہ: ’’حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن تمام زمینیں ختم ہوجائیں گی‘ سوائے مساجد کے‘ ان سب مساجد کو ایک دوسرے میں ضم کردیا جائے گا (اور انہیں جنت میں لے جایا جائے گا)۔‘‘ (کنزالعمال ، ج ۷،ص: ۶۵۲)ایک جگہ ارشاد ہے: ترجمہ: ’’حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر عمارت قیامت کے دن اس کے مالک پر وبال ہوگی سوائے مسجد کے۔ ‘‘(کنزالعمال ج: ۷‘ ص:۶۴۸)

مساجد کی ظاہری تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ انہیں ذکر، تلاوت، اذان، نماز اور اعتکاف جیسی عبادات سے بھی شاد و آباد رکھا جائے۔

حضورﷺ کا ارشاد ہے: ترجمہ: ’’جب تم جنت کے باغات سے گزرو تو چر لیا کرو ، آپﷺ سے عرض کیا گیا: جنت کے باغات کیا ہیں؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: (وہ) مساجد ہیں۔ آپﷺ سے پوچھا گیا: چرنا کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: سبحان اللہ، الحمد للّٰہ، لا الٰہ الاّ اللہ اور اللہ اکبر پڑھنا۔‘‘(مشکوٰۃ، ص : ۷۰ ، بحوالہ : ترمذی)

حضور اکرمﷺ نے مساجد کو عبادات سے آباد رکھنے والوں کے لیے کئی ضمانتیں دی ہیں، مثلاً: ایسے لوگوں کے لیے دنیا میں راحت اور آخرت میں رحمت ہے ،ایسے لوگ پُل صراط سے آسانی کے ساتھ گزرنے والے ہوں گے، اسی طرح مسجد کی طرف جانے کو رحمت کے نزول کا سبب اور انہیں ویران کرنے کو نفاق کا سبب فرمایا گیا ہے۔

ایک حدیث میں ہے: ترجمہ: ’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اچھے طریقے سے وضو کیا‘ پھر اللہ کی مساجد میں سے کسی مسجد میں نماز کے ارادے سے آیا‘ اللہ پاک اس بندے سے ایسے خوش ہوتے ہیں جیسے تم میں سے کوئی ایک اپنے عزیز کے سفر سے (کافی عرصہ بعد) واپس آنے پر خوش ہوتا ہے۔‘‘(کنزالعمال، ج:۷،ص:۵۷۴)

ایک حدیث میں ہے: ترجمہ: ’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: جب اہل مسجد پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے تو سب سے پہلے امام پر نازل ہوتی ہے، پھر امام کے دائیں طرف سے شروع ہوکر تمام صفوف پر (نازل ہوتی) ہے۔‘‘ (کنزالعمال: ج:۷‘ ص: ۵۶۶)

کسی بستی میں اذان کا ہونا اس بستی کے اللہ کے عذاب سے بچنے کا سبب اور آسمان والوں تک اپنی آواز پہنچانے کا ذریعہ ہے، جیسا کہ آپﷺ کے مندرجہ ذیل ارشادات اس پر شاہد ہیں: ترجمہ: ’’حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کسی بستی میں اذان ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ اس دن اس بستی کو عذاب سے محفوظ فرمادیتے ہیں۔‘‘(کنزالعمال جلد: ۷‘ ص: ۶۸۱)

ترجمہ: ’’حضرت معقل بن یسارؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: جس قوم میں صبح کی اذان دی جاتی ہے، ان کے لیے شام تک اللہ کے عذاب سے حفاظت ہوجاتی ہے اور جس قوم میں شام کو اذان دی جاتی ہے، ان کے لئے صبح تک اللہ کے عذاب سے حفاظت ہوجاتی ہے۔‘‘ (کنزالعمال ، ج:۷،ص:۶۸۲)

ترجمہ: ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: بےشک آسمان والے زمین میں رہنے والوں کی کوئی آواز نہیں سنتے سوائے اذان کے۔‘‘(کنزالعمال ج:۷‘ص:۶۸۲)

اذان کی تاثیر اور ہندوؤں کا اعتراف:

حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ فرماتے ہیں:’’۱۹۴۷ء میں ملک آزاد ہوا تو مشرقی پنجاب مسلمانوں سے خالی ہوگیا، وہاں کے ہندوؤں نے ایک بہت بڑا مشاعرہ کیا،جس کا صدر مولانا حبیب الرحمنؒ کو بنایا گیا۔ جب مولانا تشریف لائے تو لوگ گلے مل کر روئے اور بہت روئےاور پھر کہنے لگے کہ: مولانا! آپ گئے تو ہمارا دین و دھرم بھی لیتے گئے۔ 

مولانا نے فرمایا کہ: بھائی! ہم تمہارا دین و دھرم کیسے لے گئے؟ انہوں نے کہا کہ: آپ لوگ تھے تو یہاں کی مسجدیں آباد تھیں، پانچ وقت اذانیں ہوتی تھیں، اذانیں سن کر ہمارے دلوں میں بھی جذبہ اٹھتا تھا کہ ہم بھی بھگوان کا نام لیں، مگر اب نہ اذانیں ہیں اور نہ نماز روزے کا منظر ہے، اس لیے ہم تو ٹھنڈے پڑگئے، ہمارا دین و دھرم ختم ہوگیا، جو تمہارے دم سے قائم تھا۔ 

اس پر حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمی رحمہ اللہ مہتمم دارالعلوم دیوبند نے فرمایا: میں کہتا ہوں کہ اگر ان کے گھروں تک علم دین نہ بھی پہنچے تو اذانوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا نام ان کے گھروں تک ضرور پہنچتا ہے۔ ایک زمانے میں دارالعلوم کی مسجد کے مؤذّن جان محمد ترکی تھے، جب وہ اذان کہتے تھے تو لاؤڈ اسپیکر نہ ہونے کے باوجود بلاتکلف ان کی اذان اسٹیشن سے سنی جاتی تھی۔ ان کی آواز اتنی بلند تھی کہ کافی دور تک جاتی تھی۔ جب ان کی اذان شروع ہوتی تھی تو بہت سے ہندو بیٹھ جایا کرتے تھے کہ اب اللہ کا نام لیا جارہا ہے۔‘‘ (مجالس حکیم الاسلام،ج:۱،ص:۴۹)

ماضی اور حال گواہ ہیں کہ ہمیشہ مساجد اور مدارس ہی دین اسلام کی آبیاری اور تبلیغ و ترویج کے مراکز رہے ہیں اور مستقبل میں بھی قیامت تک ان شاء اللہ! یہی مراکز دین کی آبیاری اور سیرابی کا ذریعہ بنتے رہیں گے ۔انہی کے سائے میں بیٹھ کر قرّا ء نے تعلیم قرآن، مفسرین نے تفسیر قرآن، محدثین نے حدیث اور علمائے کرام نے آپﷺ کے جلال، جمال، اخلاق، کردار اور دین متین کا ایک ایک طریقہ، ایک ایک مسئلہ اور حکم امت کو پڑھایا، سمجھایا اور ان تک پہنچایا، اسی لیے ان مراکز کی ترقی اور حفاظت ہر مسلم پر فرض ہے خواہ وہ کسی خطے کا باشندہ ہو۔