• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال: موکّل نے وکیل سے کہا: میرے لیے فلاں سے جانور خرید لو، وکیل نے وہ اپنے لیے خرید کر آگے بیچ دیا اور نفع کمایا، موکّل کہتا ہے: میں نے آپ کو وکیل بنایا تھا، لہٰذا نفع میرا ہے، وکیل کہتا ہے: میں نے اپنے لیے خریدا، اس صورت میں کس کی بات مانی جائے گی اور نفع کس کا ہوگا؟

جواب: اس مسئلے کی چند صورتیں ہیں:

1- اگر موکّل نے وکیل کو متعین شخص سے متعین جانور خریدنے کا وکیل بنایا تھا، پھر وکیل نے وہ جانور خرید لیا تو یہ خریداری موکل کی طرف سے شمار ہوگی، پھر اسی جانور کو جب وکیل نے آگے بیچ دیا تو یہ بیع موکّل کی اجازت پر موقوف رہے گی، کیوں کہ وکیل امین ہوتا ہے، امانت میں اس قسم کا تصرف ناجائز ہے، اگر تصرف کرلیا ہے تو وہ ضامن ہوگا، امین نہیں رہا، موکل کے داموں سے جو چیز خریدی ہے، اسے کسی کے ہاتھ فروخت کرنا درست نہیں، اگر آگے چیز بیچ دی تو یہ فضولی کی بیع ہوگی، جو اصل مالک کی اجازت پر موقوف رہے گی، اگر وہ آگے بیع کو نافذ کردے تو بیع تام ہوجائے گی، ورنہ موقوف رہے گی، البتہ اگر واپسی ممکن نہ ہو تو فروخت سے حاصل شدہ رقم مع نفع وکیل موکّل کو ادا کرے گا، اس صورتِ متعینہ میں اگر وکیل اپنے جانور خریدنے کا دعویٰ کرے تو وکیل کا دعویٰ معتبر نہیں ہوگا، اسی طرح اگر موکّل نے وکیل کو جانور خریدنے کے لیے رقم ادا نہیں کی تھی تو موکل پر اس رقم کا ادا کرنا لازم ہے۔

2- موکّل نے اگر وکیل کو متعین جانور خریدنے کا نہیں کہا، بلکہ صرف آدمی کو متعین کیا اور وکیل نے جا کر اس شخص سے کوئی جانور اپنے لیے خرید لیا تو وہ جانور وکیل کا شمار ہوگا۔

3- وکیل نے اگر موکّل کی بتائی ہوئی رقم سے مہنگا جانور خریدا ہو کہ اس جیسا جانور عام طور پر ایسی قیمت پر نہیں خریدا جاتا یا وکیل نے پیسوں کی مد میں کوئی اور چیز دے کر جانور خرید لیا تو ایسی صورت میں وہ جانور وکیل کا ہوگا اور آگے بیچنے کی وجہ سے جو نفع ہوگا، وہ بھی وکیل کا ہوگا۔