مولانا محمد راشد شفیع
زندگی کے حسین رشتے، دلوں کے نازک بندھن، اور انسانی تعلقات کی عمارت اعتبار اور اعتماد کی بنیاد پر قائم ہوتی ہے۔ جب ان بنیادوں میں دراڑ آجائے، تو محبتیں ماند پڑ جاتی ہیں اور قلوب کی روشنی بجھنے لگتی ہے۔ بدگمانی اسی دراڑ کا نام ہے، ایک خاموش زہر، جو نظر نہیں آتا، مگر دلوں کو اندر ہی اندر کھوکھلا کرتا رہتا ہے۔ یہ ایک ایسی فکری آلودگی ہے جو انسان کو دوسرے انسان سے بدظن کرتی ہے، اور بسا اوقات اُسے ناحق گمان کی بنیاد پر فیصلہ کرنے پر آمادہ کر دیتی ہے۔
بدگمانی کا آغاز بسا اوقات معمولی سے شکوک و شبہات سے ہوتا ہے، مگر وقت کے ساتھ یہ شکوک گہری جڑیں پکڑ لیتے ہیں، اور انسان کی سوچ، طرزِ نظر، حتیٰ کہ طرزِ عمل کو بھی اپنی گرفت میں لے لیتے ہیں۔ نہ جانے کتنے رشتے صرف اس لیے ٹوٹ جاتے ہیں کہ کسی نے دل میں بے جا گمان پال لیا۔ نہ جانے کتنے نیک لوگ صرف اس لیے بدنام ہو جاتے ہیں کہ کسی نے اپنی سوچ کی کجی کو سچ کا جامہ پہنا دیا۔بدگمانی دراصل حسنِ ظن کی ضد ہے، اور حسنِ ظن وہ خصلت ہے جو انسان کو بلند ظرف، نرم خو اور مثبت فکر والا بناتی ہے۔
بدگمان شخص ہر بات میں کھوٹ ڈھونڈتا ہے، ہر عمل میں فریب تلاش کرتا ہے، اور ہر خاموشی میں سازش سونگھتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ خود بھی بے سکون ہوتا ہے اور دوسروں کے لیے بھی اذیت کا سبب بنتا ہے۔ یہ تمہید دراصل اس فکری و اخلاقی مرض کی نشان دہی ہے جو بظاہر معمولی ہے مگر اس کے اثرات دور رس اور تباہ کن ہوتے ہیں۔ ہمیں ضرورت ہے کہ ہم اپنے دل کو وسعت دیں، اپنے مزاج میں اعتدال پیدا کریں اور ہر ایک کے بارے میں اچھا گمان رکھنے کا ہنر سیکھیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مختلف مواقع پر بدگمانی کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ارشادِ ربّانی ہے’’اے ایمان والو! بہت سے گمانوں سے بچو، بے شک بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الحجرات، آیت 12) دوسرے مقام پر اللہ فرماتا ہے ’’اور جس بات کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو، بے شک کان، آنکھ اور دل ان سب سے بازپرس کی جائے گی۔‘‘ (سورۃالاسراء، آیت 36)
ان آیات سے بخوبی علم ہوا کہ بدگمانی ایک بہت برا روحانی مرض ہے جو کئی روحانی بیماریوں کا مجموعہ ہے جیسے حسد، غیبت، چغل خوری اس لئے کہ ان تمام روحانی امراض کی بنیاد بدگمانی بنتی ہے، اور ان آیات میں بدگمانی سے صراحت کے ساتھ بچنے کی تاکید فرمائی گئی ہے، کیونکہ بعض گمان سراسر گناہ ہوتے ہیں۔ انسان کو ہر اس بات کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے جس کا اسے یقین یا علم نہ ہو، کیونکہ کان، آنکھ اور دل سب کی بازپرس ہوگی۔
بدگمانی نہ صرف خود انسان کو گناہ کی طرف لے جاتی ہے، بلکہ دوسروں کو اذیت پہنچانے کا ذریعہ بھی بنتی ہے، حالانکہ ناحق کسی مسلمان کو اذیت دینا سخت گناہ ہے۔ یہ دل کا ایک چھپا ہوا فساد ہے جو انسان کے باطن کو آلودہ کرتا ہے، کیونکہ بدگمان شخص دل میں کچھ رکھتا ہے اور ظاہر کچھ اور کرتا ہے، جیسا کہ منافقین کا حال ہوتا ہے۔ بدگمانی شیطان کا ایک حربہ ہے جو باہمی دشمنی اور نفرت کو ہوا دیتا ہے۔
یہی بدگمانی معاشرتی امن و سکون کو برباد کر دیتی ہے اور افراد کو ایک دوسرے سے دور کر دیتی ہے۔ اسلام نے جس حسنِ ظن، پاکیزہ نیت اور حسنِ اخلاق کی تعلیم دی ہے، بدگمانی ان سب کے خلاف ایک مہلک بیماری ہے۔ یہ انسان کو تجسس، تفتیش اور دوسروں کی ٹوہ میں لگنے پر اکساتی ہے، جو کہ اسلامی تعلیمات کے منافی ہے۔ بدگمانی دل کو صاف اور روشن رکھنے کے بجائے اسے کینہ، شک اور نفرت سے بھر دیتی ہے۔
اس کا انجام ندامت، شرمندگی اور آخرت کا حساب ہے، کیونکہ جب گمان غلط نکلتا ہے تو انسان نہ صرف خود نادم ہوتا ہے بلکہ گناہگار بھی۔ احادیث میں نبی کریم ﷺنے بھی بدگمانی کی مذمت بیان فرمائی ہے۔ ایک روایت میں ارشاد فرمایا: بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔"(صحیح بخاری)
دوسری روایت میں ہے "تم بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹا قول ہے، اور ایک دوسرے کے عیب نہ تلاش کرو، نہ تجسس کرو، نہ حسد کرو، نہ بغض رکھو، نہ ایک دوسرے سے منہ موڑو، اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ۔"(صحیح بخاری) تیسری روایت ہے کہ "جب تم کسی بات کو اپنے بھائی سے بیان کرتے ہو اور وہ اِدھر اُدھر نہ دیکھے (یعنی راز داری ہو) تو وہ بات امانت ہے۔"(سنن ابوداؤد) نبی اکرم ﷺنے یہ بھی ارشاد فرمایا "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔"(صحیح بخاری)