• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہتے ہیں دس درویش ایک گدڑی میں سو سکتے ہیں مگر دو بادشاہ ایک ریاست میں نہیں رہ سکتے۔ اس وقت پاکستان پر کئی بادشاہوں کی حکومت ہے۔ یعنی حقیقت میں یہ لوگ بادشاہ نہیں درویش ہیں۔ بقول اقبال ’’وہ مردِ درویش جن کو حق نے دیے ہیں اندازِ خسروانہ‘‘ خاموش درویش ِاعظم میاں محمد نواز شریف، درویش بابا آصف علی زرداری، درویشِ اعلیٰ میاں محمد شہباز شریف۔ سجادہ نشین ِ درویش بلاول زرداری بھٹو، کراچی سےدرویش بھائی کے برگشتہ مریدینِ باحیا، کوئٹہ کے بگٹی درویش، درویشہ ِ پنجاب محترمہ مریم نواز، کئی اور چھوٹے موٹے آستانوں کے درویش، جو اس وقت حکومت میں شامل ہیں۔ انہیں ایک ہی خانقاہ میں مقیم دیکھ کر لگتا ہے کہ یہاں بادشاہ کوئی اور ہے۔

ہم سب جانتے بھی ہیں اور نہیں بھی جانتے کہ بادشاہ کون ہے مگر اس وقت ہمارا موضوع بادشاہ نہیں درویش ہیں۔ وہ درویش جو کبھی بادشاہ ہوا کرتے تھے۔ وہ لوگ بڑے بلند مرتبہ درویش سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے بادشاہی چھوڑ کر درویشی اختیار کر لی۔ بے شک بادشاہت چھوڑ کر درویشی اختیار کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ باتیں کرنا آسان ہے۔ درویشی اور بادشاہی کا بہت گہرا تعلق ہے۔ تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوئی بادشاہ معزول ہوتا تھا تو اسے درویشی کیلئے مکہ معظمہ روانہ کر دیا جاتا تھا کہ باقی زندگی وہیں اللہ کی عبادت میں گزار دے اور درویشی کی منزلِ عظیم تک پہنچ جائے مگر ہمارے دور میں معاملات کچھ مختلف ہو گئے ہیں۔ اب کسی کو مکہ معظمہ بھیجنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ آخری بادشاہ جو مکہ معظمہ روانہ کیے گئے تھے وہ میاں محمد نواز شریف تھے اور وہ دنیا کےوہ پہلے درویش ہیں جو واپس آئے اور دوبارہ بادشاہ بنے مگر افسوس کہ انہیں پھر درویش بننا پڑ گیا مگر اس مرتبہ مکہ معظمہ جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔ کہتے ہیں درویشی بہت بلند مرتبہ چیز ہے۔ بادشاہوں نے بادشاہی چھوڑ کر درویشی اختیار کی مگر کسی درویش نے کبھی یہ نہیں کیا کہ درویشی چھوڑ کر بادشاہی اختیار کر لی ہو۔ بے شک درویشی کا اپنا مزا ہے۔ یہ بھی اکثر سننے کو ملتا ہے کہ درویش اللہ والے ہوتے ہیں یعنی اللہ کے ولی ہوتے ہیں۔ ولیوں کے متعلق قران حکیم کا یہ فرمان مجھے کبھی نہیں بھولا کہ ’’اولیا اللہ کو نہ کسی کا خوف ہوتا ہے اور نہ وہ غم زدہ ہوتے ہیں۔‘‘ معذرت کے ساتھ اس وقت میں جن درویشوں کا ذکر کر رہا ہوں وہ اس قبیل میں شامل نہیں۔ ہاں میں ایک شخص کو جانتا ہوں جو اس معیار پر پورا اترتا ہے مگر اس کا نام نہیں لکھ سکتا کئی طرح کی مجبوریاں ہیں۔

سوری کسی اور سمت چل پڑا ہوں واپس آتے ہیں اسی خانقاہ میں جہاں بڑے بڑے درویش موجود ہیں۔ ایک درویش یاد آرہا ہے جو کچھ دن پہلے تک اسی عمارت میں مقیم تھا۔ جہاں آج کل درویش بابا رہتے ہیں۔ اسے وہ عمارت چھوڑنا پڑ گئی۔ روٹی کے مسائل کو دیکھتے ہوئے پھر اس نے حلال کے لقمے کیلئے لوگوں کے دانت جوڑنے شروع کر دئیے۔ یعنی اپنے دندان سازی کے کاروبار پر واپس آ گیا مگر وہ مقام بھی سیل کر دیا گیا کہ یہ تمہارا گھر ہے تم گھر میں کسی کا علاج نہیں کر سکتے۔ اب یقیناً وہ کسی اور کے ہسپتال میں یہی درویشانہ کام کیا کرے گا۔ نئے درویشوں کو چاہئے کہ ان کی خانقاہ میں جو درویش ان سے پہلے رہتے تھے ان کا خیال رکھیں کیونکہ یہ عمارت زیادہ دیر کسی کے زیر استعمال نہیں رہتی۔

خانقاہِ درویشاں میں اس وقت خاصی کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ انہیں لگ رہا ہے کہ شاید یہ خانقاہ گرنے والی ہے۔ ہم پھر سے بے آسرا ہونے والے ہیں۔ یہ خوف بھی ہے کہ کہیں عمارت کے ملبے تلے ہی نہ دب جائیں اور ہمیں تو کسی نے نیچے سے نکالنا بھی نہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان میں سے کچھ درویش بہت جلد اپنی لندن والی خانقاہ میں چلے جائیں گے کیونکہ ہوا بہت تیز ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ چراغ بجھنے سے پہلے پہلے وہ کسی محفوظ کٹیا میں منتقل ہو جائیں جہاں وہ اپنے اندازِ خسروانہ کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔

عطاالحق قاسمی نے بھی اپنے کالم ’’مجھے کیوں نکالا۔‘‘ میں بادشاہ کے درویش بننے کا تجزیہ کیا اور ناصر بٹ کا خط بھی اپنے کالم میں درج کیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’نواز شریف کا بولنا اب ہمارے جیسے لوگوں کیلئے تبرک ہی بن چکا ہے جو وہ کبھی کبھار بانٹتے ہیں۔ نواز شریف کے کم بولنے کی وجوہات ہم تو کافی عرصے سے جانتے ہیں لوگ البتہ اس پر سوال اٹھاتے رہتے ہیں‘‘۔ میں نے اسی لئے نواز شریف کے لئے ’’خاموش درویشِ اعظم‘‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ میں سمجھتا ہوں ان کے اس عمل کے پیچھے خاندان کے ساتھ ان کی محبت کا گہرا تعلق ہے۔ ان کے پرویز رشید جیسے مرید بھی مجبور ہیں کہ یا تو ان کے مرید ِ خاص عرفان صدیقی کے نقشِ کف پا پر چلیں یا پھر اپنے درویش اعظم کی طرح خاموشی اختیار کر لیں۔ یہاں قران حکیم کی آیت یاد آ رہی ہے جس کا حکم ہے۔ ’’(خبردار) کسی قوم سے دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔ اور عدل سے پھر جاؤ۔‘‘ یقیناً یہ آیت ِ کریمہ ہمارے ملک کے قاضی القضاۃ کی نظر ِسے ضرور گزری ہو گی۔ جن کا شمار نہ بادشاہوں میں ہوتا ہے نہ درویشوں میں مگر درویشوں اور بادشاہوں کے درمیان رابطہ کا پل ضرور ہے۔

تازہ ترین