• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے خیال میں ہر شخص کے اندر کچھ نہ کچھ تعصب اورکہیں نہ کہیں ڈنڈی مارنے کے جراثیم پائے جاتے ہیں، اگر میں انسان ہوں اور میری سوچی سمجھی رائے ہے کہ میں انسان ہی ہوں تو اس حوالے سے میرے اندر بھی وہ ’’بین الاقوامی‘‘ جانبداریاں موجود ہیں جو میرے آپ جیسے عام انسانوں ہی میں نہیں بلکہ سپر پاورز کا بھی طرہ امتیاز ہیں۔ تو اس مختصر سی تمہید کے بعد عرض مدعا یہ ہے کہ میں جب عمران خان کی مقبولیت بالکل مختلف اور متضاد طبقوں میں دیکھتا ہوں تو اس کی وجہ تلاش کرنے میں لگ جاتا ہوں، مثلاً تبلیغی جماعت جس کے ایک گروپ کے ساتھ میں بھی تین دن کیلئے مسلمانوں کو کلمہ طیبہ درست کرانے کیلئے گھر سے نکلا تھا اور یہ لطیفہ اس دن میرے سامنے ہی وقوع پذیر ہوا تھا کہ ہمارے گروپ کے امیر اور میرے جانی دوست صوفی محمد عارف مرحوم نے جب گائوں کے ایک شخص کو روک کر کہا ’’بھائی ہم بہت دور سے آپ سے ملنے اور آپ سے کچھ سیکھنےکیلئے آئے ہیں، آپ براہ کرم ہمارا کلمہ صحیح کرنے کیلئے اپنی زبان سے پڑھ کرسنائیں تو وہ گھبرا گیا اور اسی گھبراہٹ کے عالم میں پوچھا ’’جی کیا ہوا، کلمہ بدل گیا ہے‘‘۔ اس کےبعد جماعت والوں نے مسلمانوں سے کلمہ سنانے کی فرمائش کا سلسلہ ختم کردیا، تو عرض یہ کرنا تھا کہ یہ جماعت جو دعویٰ کرتی تھی کہ اس کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ تو لوگوں کو صرف اسلام کی طرف بلاتی ہے، اس جماعت کی بہت بڑی اکثریت اب عوام کو اسلام نہیں عمران کی طرف بلاتی ہے۔ اس حوالے سے ایک بہت بڑا تضاد یہ بھی ہے کہ جماعت کے اکابردیوبندی مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک اصطلاح کے مطابق ان کا شمار بنیاد پرست طبقے میں کیا جاسکتا ہے، یہ پیری مریدی کے بھی خلاف ہیں ، اللہ کےسوا کسی در پر سجدہ کو حرام قرار دیتے ہیں ، مگر عمران خان کو ایک جگہ غیر اللہ کےسامنے سجدہ ریز بھی دیکھتے ہیں، اس عالم میں ان کی تیسری بیوی جو جادو ٹونے کے حوالے سے بہت شہرت رکھتی ہیں ان کے ساتھ سجدہ ریزی کے دوران ان کے کان میں کچھ کہتی ہیں وہ کیا تھا، اللہ جانے، عمران جانے،ان کی بیوی جانے۔صرف یہی ایک مخمصہ نہیں بلکہ یہ انتہائی نیک لوگ جن کی بیویاں، بیٹیاں، بہنیں سب برقع اوڑھتی ہیں، فسق و فجور کے سخت خلاف ہیں، انہیں ہدایت کی جاتی ہے کہ گھر سے نکلیں تو آنکھیں جھکا کر چلیں تاکہ کسی نامحرم پر نظر نہ پڑے۔ مگر دوسری طرف عمران خان کی عمومی شہرت جس کا تعلق صرف ماضی سے نہیں حال سے بھی ہے اور اس نوع کی ان کی کئی آڈیوز لیک ہو چکی ہیں ، عائشہ گلالئی نےبہت دہائی دی کہ یہ شخص اسے گندے میسجز کرتا ہے اور جو اس شغل میں شامل حال رہیں وہ کچھ نہیں بولیں مگر ان کی لیک ہونے والی آڈیوز میں دونوں فریقوں کی انتہائی فحش گفتگو پوری دنیا نے سن لی۔میں شروع شروع میں صرف یہ سمجھتا تھا کہ مولانا طارق جمیل کی رائے ان کی ذاتی رائے ہے مگر میرے بے شمار دوست جو آج بھی جماعت کے ساتھ تبلیغ کیلئے اندرون ملک اور بیرون ملک کا سفر اختیار کرتے ہیں ان سب کے دلوں میں عمران کیلئے نرم گوشہ موجود ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ عمران کے آبائی گھر زمان پارک میں رات گئے تک لڑکے لڑکیاں ناچتے تھے ، وہ لوگ آج ان کے آئیڈیل ہیں۔

میں معذرت خواہ ہوں کہ میں نے کالم کا آغاز ہی تبلیغی جماعت سے کیا اور سارا ملبہ بھی اس پر ڈال دیا، باقی دین دار گھرانوں میں بھی یہ عفریت در آیا ہے۔ جسے اس پوری دنیا میں اپنی ذات کے سوا کوئی دوسرا عزیز نہیں۔اس نے ایک دفعہ کہا تھا کہ مجھے حکومت سے الگ کرنے سے کہیں بہتر تھا کہ پاکستان پر ایٹم بم گرا دیا جائے،یہ کسی کی نماز جنازہ میں نہیں جاتا، اپنے عزیز ترین دوست نعیم الحق کی وفات پر بھی اس کے گھر نہیں گیا۔ خان صاحب کسی پر بہت مہربان ہوں تو مرحوم کے ورثاء کو کہتے ہیں کہ اگر تعزیت کرانی ہے تو میرے گھر چلے آئو۔ خان صاحب اپنے کپڑوں میں جیب نہیں لگواتے کہ وہ اپنی جیب سے خرچ کرنا فضول خرچی سمجھتے ہیں اور خود بنی گالہ سے وزیر اعظم ہائوس تک ہیلی کاپٹر پر جاتے رہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا وزیر اعلیٰ عثمان بردار کو بنایا اوراس معصوم سے ہر کاغذ پر دستخط کرانے والوں نے اللہ جانے ہر ٹرانسفر اور پوسٹنگ پر کتنا مال بنایا۔ عمران خان فاشسٹ ہیں اور ان کے صحیح جانشین گنڈا پور ہیں۔ بعض اوقات کالم لکھتے ہوئے سب سے شروع میں جو بات پوچھنے والی ہوتی ہے، بھول چوک سے اس کا نمبر سب سے آخر میں آتا ہے۔ بہت پڑھے لکھے بہت روشن خیال بھی عمران خان کے سحر میں آئے ہوئے ہیں ان سے آپ صرف یہ پوچھ لیں کہ عمران خان اپنے دور حکومت میں، کے پی کے میں تو پانچ سال سے حکمرانی کر رہے ہیں انہوں نے عوام کی بہبود کیلئے اگر تنکا بھی توڑا ہو تو بطور مثال پیش کریں۔ کے پی کے میں ساڑھے تین سو ڈیم بنانے تھے مگر صرف ڈیم فول بناتے رہے۔ ایک کروڑ نوکریاں دینا تھیں، پچاس لاکھ گھر بنانا تھے، سارے گورنر ہائوسز بلڈوز کرنا تھے، ایک ارب پودے لگانا تھے اور اللہ جانے مزید کیا کچھ کرنا تھا مگر سوائے عوام کو بے وقوف بنانے کے کیا دیا۔ شعور دیا؟ گالی گلوچ یا مارکٹائی کا، بدتمیزی کا؟ آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ کے پاس عوام کو دینے کیلئے کیا صرف یہی تھا، انسان کسی کو وہی کچھ دیتا ہے جو وہ دے سکتا ہے۔ اس نے آرمی چیف اور آرمی کے سب بڑوں کو ابوجہل، میر صادق، میر جعفر اور اس کے علاوہ بھی ان لوگوں کو بہت کچھ کہا جو اسے حکومت میں لے کر آئے تھے۔ اب یہ ان دنوں انہی میر صادقوں اور میر جعفروں کے آستانوں پر حاضری دینے اور معافی تلافی کی کوشش میں مشغول ہے۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی۔

تازہ ترین