• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بجلی کے نرخ پاکستان میں ہمسایہ ممالک سے کم و بیش تین گنا زیادہ ہیں جسکی وجہ سے عام صارف ہی کیلئے زندگی انتہائی دشوار نہیں ہوگئی ہے بلکہ تمام اشیاء کی پیداواری لاگت بھی بے پناہ بڑھ چکی ہے اور بڑی حد تک اسی بنا پر پچھلے کئی برسوں سے معیشت سخت بحران سے دوچار ہے۔ تاہم موجودہ حکومت معاشی بحالی کیلئے سنجیدگی سے کوشاں ہے اور اسکے اقدامات کے مثبت نتائج بھی کلیدی معاشی اشاریوں میں بہتری کی شکل میں سامنے آرہے ہیں۔ بجلی کے نرخوں میں کمی کی تدابیر بھی حکومت کی جانب سے جاری ہیں جن میں آئی پی پیز سے بات چیت سرفہرست ہے اور تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ان کوششوں میں امید افزا پیش رفت ہورہی ہے ۔ اس معاملے کا پس منظر یہ ہے کہ حالیہ برسوںمیں کاروباری حلقوں، معاشی ماہرین اور بعض سیاسی جماعتوں نے بجلی کی مہنگائی کے بنیادی سبب کی نشان دہی بجلی پیدا کرنیوالی خود مختار کمپنیوں یعنی انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز سے، جنہیں مختصراً آئی پی پیز کہا جاتا ہے، کیے گئے معاہدوں کی بعض شقوں کی صورت میں بڑی شد ومد سے کی جو قومی مفادات سے صریحاً متصادم ہیں۔ ان میں سے ایک اِن بجلی گھروں کو پوری پیداواری صلاحیت کے مطابق ادائیگی ہے خواہ طلب میں کمی کی وجہ سے ایک یونٹ بجلی بھی انہوں نے پیدا نہ کی ہو۔ علاوہ ازیں ان معاہدوں کے تحت بجلی گھروں کو ادائیگی پاکستانی سکے میں نہیں بلکہ امریکی ڈالروں میں کی جاتی ہے جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر غیر ضروری دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔وفاقی حکومت کی قائم کردہ ٹاسک فورس نے آئی پی پیز سے بات چیت کا سلسلہ شروع کررکھا ہے ۔ روزنامہ دی نیوز سے اس ٹاسک فورس کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی بات چیت کے مطابق 1994 اور 2002 ءکی پاور پالیسیوں کے تحت وجود میں آنے والے پانچ آئی پی پیز نے ایک متوقع اقدام کے طور پربجلی کی خریداری کے معاہدے ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔حتمی تصفیے کے بعد ان آئی پی پیز کو مستقبل میں ادائیگیاں نہیں کی جائیں گی تاہم ان کے سابقہ واجبات ادا کیے جائیں گے لیکن یہ ادائیگی صرف بجلی کی قیمت کی ہوگی، سودکی نہیں ۔ مزید یہ کہ 80سے 100ارب روپے کی ماضی کی کیپسٹی پیمنٹس جو حکومت پرآئی پی پیز کی جانب سے واجب الاد ہیں ، ان کے حجم پر مذاکرات جاری ہیں۔یہ آئی پی پیز جو ’’تعمیر کرو، چلائو، ملکیت میں رکھو اور منتقل کردو‘‘ کی بنیاد پر کام کر رہی تھیں وہ حکومت کے حوالے ہوجائیں گی تاہم جو آئی پی پیزاس معاہدے کے تحت وجود میں نہیں آئیں وہ اپنے مالکان کے پاس ہی رہیں گی۔ اس طرح کیپسٹی چارجز کی مد میں 300 ارب روپے تک کی بچت ہوسکے گی جو کہ آئندہ 3 سے 10 سال کے اندر انہیں ادا کی جانی تھی اور اس سے صارفین کو 60 پیسے فی یونٹ ریلیف ملے گا۔ اس عہدیدار نے مزید بتایا کہ 17 مزید آئی پی پیز جو کہ 1994 ءاور 2002 ءکے معاہدے کے تحت وجود میں آئی تھیں، ان کی نشاندہی بھی ہوچکی ہے اور یہ بھی نئی شرائط پر کام کریں گی۔حکومت ان سے اس وقت تک ٹیک اینڈ پے موڈ کے تحت بجلی خریدنا جاری رکھے گی جب تک توقع کے مطابق ڈیڑھ دو سال میں نجی پاور مارکیٹ نہیں بن جاتی۔ بجلی کی نجی مارکیٹ کا نظام بن جانے کے بعد ان 17 آئی پی پیز کو اجازت دی جائے گی کہ وہ مسابقتی باہمی تجارت کی کنٹریکٹ مارکیٹ کے تحت بجلی بیچنا جاری رکھیں۔ ٹاسک فورس کے عہدیدار کے مطابق مسابقتی نظام کے تحت بجلی کے نرخوں میں واضح کمی ممکن ہوگی۔ یہ پیش رفت اگرچہ خوش آئند ہے تاہم بجلی کی مہنگائی کا ایک اور بڑا سبب بجلی کے بلوں میں شامل متعدد حکومتی ٹیکس ہیں جن کا حجم 800 ارب روپے تک جاپہنچا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ انکم ٹیکس کا دائرہ ان تمام شہریوں تک وسیع کرکے جن پر ٹیکس لاگو ہوتا ہے، بجلی کے بلوں پروصول کئے جانے والے ٹیکس ختم کیے جائیں۔

تازہ ترین